Ahsan-ut-Tafaseer - An-Nahl : 28
الَّذِیْنَ تَتَوَفّٰىهُمُ الْمَلٰٓئِكَةُ ظَالِمِیْۤ اَنْفُسِهِمْ١۪ فَاَلْقَوُا السَّلَمَ مَا كُنَّا نَعْمَلُ مِنْ سُوْٓءٍ١ؕ بَلٰۤى اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌۢ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ
الَّذِيْنَ : وہ جو کہ تَتَوَفّٰىهُمُ : ان کی جان نکالتے ہیں الْمَلٰٓئِكَةُ : فرشتے ظَالِمِيْٓ : ظلم کرتے ہوئے اَنْفُسِهِمْ : اپنے اوپر فَاَلْقَوُا : پس ڈالیں گے السَّلَمَ : پیغام اطاعت مَا كُنَّا نَعْمَلُ : ہم نہ کرتے تھے مِنْ سُوْٓءٍ : کوئی برائی بَلٰٓى : ہاں ہاں اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا بِمَا : وہ جو كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے تھے
(ان کا حال یہ ہے کہ) جب فرشتے ان کی روحیں قبض کرنے لگتے ہیں (وہ یہ) اپنے ہی حق میں ظلم کرنے والے (ہوتے ہیں) تو مطیع ومنقاد ہوجاتے ہیں (اور کہتے ہیں) کہ ہم کوئی برا کام نہیں کرتے تھے۔ ہاں جو کچھ تم کیا کرتے تھے خدا اسے خوب جانتا ہے۔
28۔ اس آیت کے ٹکڑے میں بد لوگوں کی اور اس سے آگے جو ٹکڑا ہے اس میں نیک لوگوں کی قبض کا حال ہے۔ دونوں طرح کی روحوں کے قبض ہونے کے حال میں معتبر سند سے ابوداؤد و نسائی ابن ماجہ اور مسند امام احمد بن حنبل میں براء بن عازب ؓ وغیرہ سے جو روایتیں آئی ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ بد لوگوں کی قبض روح کے لئے خوفناک صورت کے فرشتے آتے ہیں اور عذاب قبر اور عذاب قیامت کا حال اس قریب المرگ شخص کی روح کو سناتے ہیں۔ اس حال کو سن کر وہ روح ڈرتی ہے اور جگہ جگہ بدن میں چھپتی ہے وہ فرشتے روح کو بدن سے نکالنے کی غرض سے اس بد شخص کے منہ اور اس کی پیٹھ پر بری طرح سے مارتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خبیث اب بدن سے نکل اللہ کا غضب اور عذاب تیرے لئے تیار ہے آخری قبض روح کے وقت کی سختی کی مثال حدیث میں یہ ہے کہ جس طرح بھیگی ہوئی اون میں گرم سینچا چلا کر نکالا جاوے اور نمی کے سبب سے ان کے سب بال سینچہ کو لپٹ جاتے ہیں اور سومھی اون کے بالوں کی طرح اڑ کر کوئی بال جلنے سے نہیں بچ سکتا اسی طرح بدن کے رونگٹے رونگٹے کو تکلیف پہنچ کر بد آدمی کی روح نکلتی ہے روح کے نکلتے ہی زمین پر ایک طرح کی بدبو پھیلتی ہے آنحضرت ﷺ نے اس بدبو کا ذکر فرماتے وقت ناک کو کپڑا لگا لیا تھا کہ گویا بدبو آہی رہی ہے۔ اسی طرح حضرت ابوہریرہ ؓ جب اس حدیث میں بدبو کے ذکر کی روایت کرتے تھے تو ناک کو کپڑا لگا لیا کرتے تھے اسی طرح اس بدبو کے پھیلنے سے آسمان کے فرشتوں کو ایک طرح کی اذیت ہوتی ہے اور آسمان کے فرشتے اس روح کو بہت برا کہتے ہیں اور یہ قبض روح والے فرشتے اس روح کو ایک ٹاٹ کے ٹکڑے میں لپیٹ کر خدا تعالیٰ کے روبرو لے جانا چاہتے ہیں مگر آسمان کے دروازے کھلنے کا حکم نہیں ہوتا اور اس روح کو پھر جسم میں لایا جا کر منکر نکیر کا سوال ہوتا ہے اور جواب پورا نہ ہونے سے سجنا مقام میں جو ساتوں زمین کے نیچے ہے اس روح کا نام لکھ لیا جاتا اور طرح طرح کا عذاب قبر شروع ہوجاتا ہے جس سے اللہ ہر ایک مسلمان کو محفوظ رکھے ایک بد صورت شخص قبر میں آن کر مردے سے کہتا ہے کہ آج وعدے کا دن ہے مردہ کہتا ہے۔ تجھ کو خدا کی مار تو کون ہے وہ کہتا ہے میں تیرا بد عمل ہوں۔ غرض یہ مردہ ہمیشہ عذاب قبر میں مبتلا رہتا ہے اور دعا مانگتا رہتا کہ قیامت دیر میں قائم ہو تاکہ اس سے زیادہ عذاب میں نہ پھنسوں نیک لوگوں کی قبض روح کے وقت خوبصورت فرشتے آتے ہیں اور جنت کی خوشبو کا بسا ہوا ایک ریشمی کپڑے کا ٹکڑا لاتے ہیں اور روح کو اللہ کی رضا مندی اور جنت کی نعمتوں کی خوشخبری سناتے ہیں مثال کے طور پر حدیث میں فرمایا ہے کہ جس طرح پانی کی بھری ہوئی مشک میں سے پانی کے قطرے جلدی جلدی مشک کے دہانے سے ٹپک کر نکل جاتے ہیں اللہ کی رضامندی اور جنت کی نعمتوں کا حال سن کر اس طرح پھرتی اور آسانی سے تمام جسم کی نیک روح اکٹھی ہو کر جھٹ بدن سے نکل جاتی ہے اور اس کے نکلتے ہی ایک خوشبو آسمان کے فرشتے تک پہنچتی ہے جس کو سونگھ کر آسمان کے فرشتے آپس میں کہتے ہیں آج کوئی نیک روح بدن سے الگ ہوئی ہے اسی کی یہ خوشبو ہے اور آسمان کے ہر دروازے کے فرشتے یہ آروز کرتے ہیں کہ ہماری طرف سے یہ روح آوے تو اچھا ہے قبض روح کرنے والے فرشتے اس روح کو اس ریشمی خوشبو دار کپڑے میں لپیٹ کر جب آسمان پر لے جاتے ہیں تو ہر ایک آسمان کے فرشتے اپنے علاقے تک اس روح کے ساتھ جاتے ہیں بڑی عزت سے اس شخص کا نام لیتے ہیں جس کی یہ روح ہے یہاں تک کہ اللہ کے روبرو اس روح کو لے جاتے ہیں وہ روح اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس روح کو علیین میں لکھ لو علیین ساتویں آسمان پر ایک مقام ہے پھر وہ روح جسم میں لائی جاتی ہے اور منکر نکیر کے سوال و جواب کے وقت وہ ثابت قدمی اللہ کی طرح سے عنایت ہوتی ہے جس کا ذکر اوپر گزرا اور منکر نکیر کا جواب پورا ادا ہوجاتا ہے تو بڑا خوب صورت ایک شخص قبر میں اس نیک مردہ کے پاس آتا ہے یہ نیک مردہ اس شخص سے پوچھتا ہے تو کون ہے وہ کہتا ہے میں تیرا نیک عمل ہوں۔ حاصل کلام یہ ہے کہ تمام اہل سنت کا یہ عقیدہ ہے کہ آدمی کے مرجانے کے بعد روح فنا نہیں ہوتی بلکہ اچھی روحیں طرح طرح کے جانوروں کی شکل میں جنت میں چرتی پھرتی ہیں اور بری روحیں عذاب میں گرفتار رہتی ہیں لیکن اچھی روحیں قیامت کے قائم ہونے کی دعا مانگتی رہتی ہیں کیونکہ آدمی کے بھیس میں آن کر خاص مکان اور ہر طرح کا عیش تو ان کو قیامت کے قائم ہونے کے بعد ملے گا بالفعل تو وہ جنت میں اس طرح ہیں جس طرح کوئی اوپری جانور کسی باغ میں ہوتا ہے اگرچہ بعضے علماء نے یہ کہا ہے کہ قیامت سے پہلے سوا شہیدوں کے اور کوئی روح جنت میں نہ جاوے گی لیکن حدیث شریف میں عام مسلمانوں کی روحوں کے جنت میں رہنے کا ذکر قیامت سے پہلے آچکا ہے۔ چناچہ معتبر سند سے نسائی، مؤطا اور بیہقی کی کتاب بعث و نشور میں کعب بن مالک ؓ کی روایت 1 ؎ میں اس کا ذکر صراحت سے ہے۔ شہیدوں کی روحوں اور عام ایمانداروں کی روحوں میں فرق اسی قدرے ہے کہ عام ایمانداروں کی روحیں پیدل شخص کی طرح جانوروں کی شکل سے جنت میں جاویں گی اور شہیدوں کی روحیں سوار شخص کی طرح سبز جانوروں کے پوٹے میں ہوں گی جس کا ذکر مسند امام احمد وغیرہ کی حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی صحیح روایت میں ہے۔ فالقوا السلم ما کنا نعمل من سوء اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ آخرت وقت پر عذاب کے فرشتوں کو دیکھ کر اپنے آپ کو فرمانبردار ٹھہرا کر نافرمانی کا انکار کریں گے مگر اللہ تعالیٰ اپنے علم سے ان کے اس انکار کو جھٹلاوے گا۔ 1 ؎ شرح الصدور (از سیوطی) ص 96۔ 97۔
Top