Ahsan-ut-Tafaseer - An-Nahl : 3
خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ بِالْحَقِّ١ؕ تَعٰلٰى عَمَّا یُشْرِكُوْنَ
خَلَقَ : اس نے پیدا کیے السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضَ : اور زمین بِالْحَقِّ : حق (حکمت) کے ساتھ تَعٰلٰى : برتر عَمَّا : اس سے جو يُشْرِكُوْنَ : وہ شریک کرتے ہیں
اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی برحکمت پیدا کیا اس کی ذات ان (کافروں) کے شرک سے اونچی ہے۔
3۔ 4۔ اللہ پاک نے اوپر کی آیتوں میں قیامت کے برحق ہونے کو شرک کی ممانعت کو اور توحید کو بیان کیا تھا کہ سوائے اللہ کی ذات کے اور کوئی معبود نہیں ہے۔ اس لئے یہ آیتیں توحید اور حشر کی ثبوت کے طور پر نازل فرمائیں اور فرمایا کہ اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا اور یہ آسمان و زمین بالکل بےفائدہ نہیں بنائے گئے ہیں ان سے بڑے بڑے کام دنیا کے اندر نکلتے ہیں جو انسان کی زندگی میں ضروری ہیں پھر فرمایا کہ کفار جن معبودوں کو اس کا شریک ٹھہراتے ہیں ان سے وہ اندر نکلتے ہیں جو انسان کی زندگی میں ضروری ہیں پھر فرمایا کہ کفار جن معبودوں کو اس کا شریک ٹھہراتے ہیں ان سے وہ کہیں برتر و بزرگ ہے انہیں کیا خاک قدرت ہے اور جب ان میں کچھ قدرت نہیں تو ان کی پوجا سے کچھ حاصل بھی نہیں پھر انسان کی پیدائش کا حال بیان فرمایا کہ یہ اپنی حقیقت کو بھول گیا اور اللہ نے اس کو ایک قطرہ ناپاک سے پیدا کیا جوں توں وہ سیانا اور بڑا ہوتا گیا خدا سے جھگڑنے لگا اس کا شریک ٹھہراتا اس کے رسولوں کو اور حشر کو جھٹلایا اتنا نہیں سمجھا کہ بغیر حشر اور نیک و بد کی جزا و سزا کے آسمان و زمین اور تمام دنیا کا پیدا کرنا کیوں کر ٹھکانے سے لگتا ہے۔ مسند امام احمد اور ابن ماجہ میں بشیر بن حجاش ؓ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھ میں تھوک کر فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے بنی آدم تو مجھے کس طرح دوبارہ پیدا کرنے سے عاجز سمجھتا ہے تیری حقیقت تو یہ ہے کہ میں نے تجھے اس تھوک جتنی چیز سے پیدا کیا ہے پھر تجھے حد کمال تک پہنچا دیا اور پھر تیرے لئے موت بھیج دی اور تو اپنی دو چادروں میں لپٹ کر چلا آیا اور جو کچھ کما کما کر اکٹھا کیا تھا اسے کسی اچھے موقع پر خرچ نہیں کیا 1 ؎۔ یہ حدیث مستدرک حاکم میں بھی ہے اور حاکم نے اس کو صحیح کہا ہے 2 ؎۔ معتبر سند سے البعث و النشور بیہقی اور مستدرک حاکم میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ عاص بن وائل نے ایک بوسیدہ ہڈی کو آنحضرت ﷺ کے روبرو خوب ملا اور اس کی خاک کو ہوا میں اڑا کر آنحضرت ﷺ سے بڑی بحث کی کہ ایسی بوسیدہ ہڈیاں پھر دوبارہ کیوں کر جاندار ہوجاویں گی 3 ؎۔ انسان کے ایک بےحقیقت چیز سے پیدا ہونے اور پھر اپنی حقیقت کو بھول کر جھگڑا لو بن جانے کا جو ذکر آخری آیت سے یہ حدیثیں گویا تفسیر ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ جس صاحب قدرت نے ان منکرین حشر کے پتلوں کو پانی جیسی پتلی چیز سے بنا دیا اور ان پتلوں میں روح پھونک دی اس کی قدرت کے آگے ہر جگہ سے رواں دواح خاک کا جمع کرلینا اور اس کا پتلہ تیار کر کے اس میں روح کا پھونک دینا کیا دشوار ہے یہ اوپر گزر چکا ہے کہ مرنے کے بعد انسان کی خاک رواں دواں ہو کر جہاں جہاں جاوے گی اس کا سب حال پہلے ہی لوح محفوظ میں لکھا جا چکا ہے۔ 1 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 561 ج 2۔ 2 ؎ تفسیر الدر النثور ص 110 ج 4۔ 3 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 581 2 تفسیر سورت یٰسین و لباب التقول ص 187۔
Top