Ahsan-ut-Tafaseer - An-Nahl : 5
وَ الْاَنْعَامَ خَلَقَهَا١ۚ لَكُمْ فِیْهَا دِفْءٌ وَّ مَنَافِعُ وَ مِنْهَا تَاْكُلُوْنَ۪
وَالْاَنْعَامَ : اور چوپائے خَلَقَهَا : اس نے ان کو پیدا کیا لَكُمْ : تمہارے لیے فِيْهَا : ان میں دِفْءٌ : گرم سامان وَّمَنَافِعُ : اور فائدے (جمع) وَمِنْهَا : ان میں سے تَاْكُلُوْنَ : تم کھاتے ہو
اور چارپایوں کو بھی اسی نے پیدا کیا۔ ان میں تمہارے لئے جڑاول اور بہت سے فائدے ہیں اور ان میں سے بعض کو کھاتے بھی ہو۔
5۔ 7۔ اللہ پاک نے انسان کی پیدائش کا حال پہلے بیان کر کے اب چوپائیوں کا ذکر کیا کہ اونٹ گائے بکریاں جس کی تفسیر سورت انعام میں گزر چکی ہے یہ سب تمہارے واسطے پیدا کئے گئے ہیں تم اس کا احسان نہیں مانتے خیال کرو تو ان جانوروں سے تمہیں کیا کیا فائدہ پہنچتا ہے۔ بعض جانوروں کی کھال کا پوشین بنتا ہے بعض جانوروں کے روئیں بنے جاتے ہیں جس سے اونی کپڑے تیار ہوتے ہیں اور جاڑوں میں اس کا استعمال ہوتا ہے سردی سے لوگ بچتے ہیں بعض جانوروں کے دودھ لوگ پیتے ہیں ان کے گوشت کھائے جاتے ہیں ان جانوروں کو جب چرا کر لاتے ہو وہ کھا کر شکم سیر کرتے ہیں ان کے تھن دودھ سے بھرے ہوتے ہیں تو ان کو دیکھ کر تم خوش ہوتے ہو اور صبح کر چرانے لے جاتے ہو اور وہ الگ الگ ہو کر چرنے لگتے ہیں اور ایک کی آواز ایک سن کر بولنے لگتا ہے تو کیسا خوشنما سا سما نظر آتا ہے اور تجارت وغیرہ کے لئے جب کوئی بوجھ کہیں لے جانا چاہتے ہو تو جانوروں کی پیٹھ پر رکھ کرلے جاتے ہو اگر تم خود لے جاتے تو ممکن نہ تھا اگر ممکن بھی تھا تو بڑی مشقت کا کام تھا غرض ذرا سمجھو اللہ پاک بندوں پر کیسا مہربان اور رحیم ہے کہ ان کی ہر ایک ضرورت کے رفع کرنے کا اس نے سامان پیدا کیا۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے عبد اللہ بن مسعود ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے 1 ؎۔ جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا شرک سے بڑھ کر دنیا میں کوئی گناہ نہیں اس حدیث کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے انسان کو انسان کی ضرورت کی چیزوں کو اس طرح پیدا کیا کہ ان بت پرستوں کے بتوں کا اس میں کچھ دخل نہیں ہے تو اللہ کی تعظیم اور عبادت میں دوسروں کو شریک کرنا بڑی خرابی کی بات ہے۔ 1 ؎ مشکوٰۃ ص 16 باب الکبائر و تفسیر ابن کثیر ص 494 ج 2۔
Top