Ahsan-ut-Tafaseer - An-Nahl : 70
وَ اللّٰهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ یَتَوَفّٰىكُمْ١ۙ۫ وَ مِنْكُمْ مَّنْ یُّرَدُّ اِلٰۤى اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَیْ لَا یَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَیْئًا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ قَدِیْرٌ۠   ۧ
وَاللّٰهُ : اور اللہ خَلَقَكُمْ : پیدا کیا تمہیں ثُمَّ : پھر يَتَوَفّٰىكُمْ : وہ موت دیتا ہے تمہیں وَمِنْكُمْ : اور تم میں سے بعض مَّنْ : جو يُّرَدُّ اِلٰٓى : لوٹایا (پہنچایا) جاتا ہے طرف اَرْذَلِ الْعُمُرِ : ناکارہ۔ ناقص عمر لِكَيْ : تاکہ لَا يَعْلَمَ : وہ بےعلم ہوجائے بَعْدَ : بعد عِلْمٍ : علم شَيْئًا : کچھ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا قَدِيْرٌ : قدرت والا
اور خدا ہی نے تم کو پیدا کیا پھر وہی تم کو موت دیتا ہے اور تم میں بعض ایسے ہوتے ہیں کہ نہایت خراب عمر کو پہنچ جاتے ہیں اور (بہت کچھ) جاننے کے بعد ہر چیز سے بےعلم ہوجاتے ہیں۔ بیشک خدا (سب کچھ) جاننے والا (اور) قدرت والا ہے۔
70۔ صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ساٹھ برس کی عمر کا ہو کر جو شخص دنیا کی مکروہات میں پھنسا رہے اس طرح کا شخص اگر اللہ کے روبرو توبہ کرنے اور نیک کام کرنے کا موقع نہ پانے کا عذر کرے گا تو اس کا عذر مقبول نہ ہوگا 1 ؎۔ کیونکہ اتنی بڑی عمر پانے سے اس کو اللہ کی طرف جھک جانے کا اچھا موقع مل چکا ہے۔ اسی طرح کی روایتوں سے علماء نے انسان کی عمر کے چار درجے ٹھہرائے ہیں اول درجہ تو دن بدن بڑھنے کا ہے اس کی مدت تینتیس برس تک ہے پھر چالیس تک ایک ہی حالت پر آدمی رہتا ہے اسی کو سن وقوف کہتے ہیں پھر چالیس سے ساٹھ تک اندرونی گھٹاؤ انسان کی حالت میں شروع ہوجاتا ہے ایسی ہی عمر کو ادھیڑ کہتے ہیں اس کے بعد سے طرح طرح کے اندرونی مرض پیدا ہو کر وہ ادھیڑ پنے کی حالت بھی باقی نہیں رہتی اور بات کہہ کر بھول جانا اور خرابیاں اس ناکارہ عمر کی شروع ہوجاتی ہیں۔ جس ناکارہ عمر کا ذکر آیت میں ہے حضرت علی ؓ نے فرمایا ہے کہ اس امت کے لوگوں کے لئے پچھتر برس کی عمر وہی ناکارہ عمر ہے 2 ؎، جس کا ذکر آیت میں ہے۔ بخاری اور مسلم میں انس بن مالک ؓ سے روایت ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے اس طرح کی عمر سے اللہ کی پناہ چاہی ہے 3 ؎۔ بعضے علماء نے یہاں یہ ایک شبہ کیا ہے کہ مسند امام احمد، ترمذی، دارمی، طبرانی اور مستدرک میں ابی بکرہ ؓ اور عبد اللہ بن بسر ؓ کی صحیح روایتیں ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ جس شخص کی عمر بڑی ہو اور عمل نیک ہوں وہ اچھا شخص ہے 4 ؎۔ پھر آپ نے بڑی عمر سے اللہ کی پناہ جو چاہی ہے اس کا کیا مطلب ہے جواب اس شبہہ کا یہ ہے کہ جس عمر تک آدمی سے نیک کام ہو سکے نہ اس کا آیت میں ذکر ہے نہ آپ نے اس سے پناہ چاہی ہے بلکہ آپ نے ناکارہ عمر سے پناہ چاہی ہے اور اسی کا ذکر آیت میں ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آدمی کی عمر کا انقلاب یاد دلا کر یہ تنبیہہ فرمائی ہے کہ ان انقلابوں پر جو قادر ہے اس نے ایک اس انقلاب کا بھی مضبوط وعدہ کیا ہے کہ ہر ایک انسان کو مر کر پھر جینا ہے اس پر ایمان لانا اور عقبیٰ کی فکر کا کرنا ہر مسلمان کا جز ایمان ہے۔ ان اللہ علیم قدیر اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس اپنے علم اور قدرت کے موافق پہلی دفعہ انسان کو پیدا کیا ہے اسی کے موافق وہ انسان کو پھر دوبارہ پیدا کرے گا جو لوگ اس کے منکر ہیں وہ گویا اپنی پہلی پیدائش کے منکر ہیں۔ 1 ؎ صحیح بخاری ص 950 ج 2 باب من بلغ ستین سنۃ الخ۔ 2 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 577 ج 2۔ 3 ؎ صحیح بخاری ص 942 ج 2 باب الاستعاوۃ من ارؤل العمر۔ 4 ؎ جامع ترمذی ص 56 ج 2 باب ماجاء فی طول العمر للمؤمنین۔
Top