Ahsan-ut-Tafaseer - An-Nahl : 84
وَ یَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ اُمَّةٍ شَهِیْدًا ثُمَّ لَا یُؤْذَنُ لِلَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ لَا هُمْ یُسْتَعْتَبُوْنَ
وَيَوْمَ : اور جس دن نَبْعَثُ : ہم اٹھائیں گے مِنْ : سے كُلِّ : ہر اُمَّةٍ : امت شَهِيْدًا : ایک گواہ ثُمَّ : پھر لَا يُؤْذَنُ : نہ اجازت دی جائے گی لِلَّذِيْنَ : وہ لوگ كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا (کافر) وَ : اور لَا هُمْ : نہ وہ يُسْتَعْتَبُوْنَ : عذر قبول کیے جائیں گے
اور جس دن ہم ہر امت میں سے گواہ (یعنی پیغمبر) کھڑا کریں گے تو نہ تو کفار کو (بولنے کی) اجازت ملے گی اور نہ ان کے عذر قبول کئے جائیں گے۔
84۔ 87۔ اللہ پاک نے مشرکوں کے نتیجے جو قیامت کے دن ہوں گے ان کو ان آیتوں میں بیان فرمایا کہ ہر ایک امت کا گواہ اس روز اس امت کا پیغمبر کھڑا ہو کر اس بات کی گواہی دے گا کہ جو پیغام خدا کی طرف سے ان کے پاس پہنچایا گیا اس کا کیا جواب ان لوگوں نے دیا کس کس نے ان کی رسالت کی تصدیق کی اور کس کس نے اللہ کے رسولوں کو جھٹلایا اگرچہ اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے۔ لیکن اس نے مخلوق کے حساب و کتاب کا دارو مدار اپنے علم پر نہیں رکھا ہے جس طرح دنیا میں انسان کی عادت جاری ہے کہ ہر ایک مقدمہ میں گواہ پیش ہو کر فیصلے ہوا کرتا ہے اسی طرح آخرت میں بھی گواہوں کی شہادت سن کر فیصلہ کیا جائے گا غرض کہ جس وقت انبیاء و رسول ہر ہر امت کے خدا کے روبرو ان کی گواہی دیں گے اور مشرکین لوگ جب اس گواہی کو نہ مانیں گے تو مشرکوں کے اعضاء سے گواہی دلوائی جاوے گی پھر ان مشرکوں کا کوئی عذر نہیں سنا جائے گا اور نہ ان کو زبان کھولنے کی اجازت ملے گی۔ پھر مشرکین اور کفار جنہوں نے خدا کی نافرمانی کر کے دنیا میں اپنی جان پر ظلم کیا تھا جہنم کے عذاب کو دیکھیں گے اور ان پر عذاب ہونے لگے گا تو پھر اس میں کمی نہیں کی جائے گی دم لینے کی بھی مہلت نہیں ملے گی اور جس و قت مشرکین اپنے ان معبودوں کو دیکھیں گے جنہیں دنیا میں وہ پوجتے تھے اور خدا کا شریک ٹھہراتے تھے تو کہنے لگیں گے کہ اے رب یہی ہمارے وہ شریک ہیں جنہیں ہم تیرے سوا دنیا میں پوجتے تھے اور پکارتے تھے انہیں کی نسبت ہمارا یہ خیال تھا کہ ان کے سبب سے ہمیں تیری قربت حاصل ہوگی اور انہیں کی نسبت ہمارا یہ اعتقاد تھا کہ تیرے دربار میں ہماری شفاعت کریں گے مشرکوں کی یہ باتیں سن کر ان کے وہ معبود جلدی سے ان کے قول کو جھٹلا دیں گے کہ تم محض جھوٹے ہو تم نے ہرگز ہماری عبادت نہیں کی تم تو اپنی خواہش نفسانی کے پیرو تھے تمہارا نفس جو کچھ تمہیں سکھلاتا تھا وہی کرتے تھے۔ یہاں شہید کے معنے گواہ کے ہیں۔ ابن ابی حاتم میں قتادہ کا قول ہے کہ ہر ایک امت کی حالت پر یہ رسولوں کی گواہی اللہ تعالیٰ کے روبرو پیش ہوگی کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کا پیغام اپنی امتوں کو پہنچادیا۔ مسند امام احمد، صحیح بخاری، نسائی اور ابن ماجہ کے حوالہ سے سورت الاعراف میں ابو سعید خدری ؓ کی حدیث گزر چکی ہے 1 ؎ جس کا حاصل یہ ہے کہ جن امتوں نے دنیا میں اپنے رسولوں کی نافرمانی کی ہے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان امتوں کے رسولوں سے پوچھے گا کہ تم نے اللہ تعالیٰ کے احکام اپنی امتوں کو پہنچاوے تھے اللہ تعالیٰ کے رسول جواب دیویں گے یا اللہ تجھے خوب معلوم ہے کہ ہم نے ان لوگوں کو تیرے سب احکام پہنچادئیے تھے۔ اس حدیث قتاد کے قول کی پوری تائید ہوتی ہے اس لئے قتادہ کا قول اور یہ حدیث آیت کے ٹکڑے ویوم نبعث من کل امتۃ شھیدا کی تفسیر ہے۔ صحیح بخاری میں سعید بن جبیر ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ نافع بن ازرق نے حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے پوچھا تھا کہ قرآن شریف میں کہیں تو یہ ہے کہ مشرکوں کو قیامت کے دن بات کرنے اور کسی عذر کے پیش کرنے کا حکم نہ ہوگا اور کہیں یہ ہے کہ مشرک لوگ قسمیں کھا کھا کر اللہ تعالیٰ کے روبرو شرک کا انکار کریں گے اس اختلاف کا کیا سبب ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ نے اس کا جو جواب دیا اس کا حاصل یہ ہے کہ قیامت پچاس ہزار برس کا دن ہے اس میں یہ مشرک لوگ پہلے پہل شرک سے انکار رسولوں کا جھٹلانا سب کچھ کریں گے پھر آخر کو ان کے منہ پر خاموشی کی مہر لگائی جا کر ان کے ہاتھ پیروں سے گواہی لی جاوے گی اس کے بعد ان کو جھوٹ بولنے اور کسی جھوٹے عذر کے پیش کرنے کا موقع باقی نہ رہے گا۔ معتبر سند سے مسند امام احمد صحیح ابن حبان اور مسند ابی یعلی میں ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا قیامت کا دن پچاس ہزار برس کا ہوگا 2 ؎۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے 3 ؎ کہ جب مشرک لوگ اپنے اسلام کا جھوٹا دعویٰ کریں گے تو ان کے منہ پر خاموشی کی مہر لگائی جا کر ان کے اعضاء سے اصل حال کی گواہی ہی ادا کرائی جاوے گی تاکہ ان کا جھوٹ اچھی طرح کھل جاوے اور یہ لوگ پورے قائل ہوجاویں۔ ان حدیثوں سے عبد اللہ بن عباس ؓ کے قول کی پوری تائید ہوتی ہے اور حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کا قول اور یہ حدیثیں آیت کے ٹکڑے ثم لا یؤذن للذین کفرو ولا ھم یستعتبون کی تفسیر ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ آیت کے اس ٹکڑے میں مشرکوں کی ایک خاص حالت کا ذکر ہے دوزخیوں کی جلی ہوئی کھال کے گھڑی گھڑی بدلے جانے کا ذکر مشرکوں کے جھوٹے معبودوں کا اپنے پوجنے والوں سے بیزار ہونے کا ذکر۔ مشرکوں کے شرک سے پچھتانے کا ذکر یہ سب اوپر گزر چکا ہے وہی باقی آیتوں کی تفسیر ہے۔ 1 ؎ تفسیر ہذا جلذ دوم ص 231۔ 2 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 581 ج 4۔ 3 ؎ جلد ہذا ص 339۔
Top