Ahsan-ut-Tafaseer - An-Nahl : 9
وَ عَلَى اللّٰهِ قَصْدُ السَّبِیْلِ وَ مِنْهَا جَآئِرٌ١ؕ وَ لَوْ شَآءَ لَهَدٰىكُمْ اَجْمَعِیْنَ۠   ۧ
وَ : اور عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر قَصْدُ : سیدھی السَّبِيْلِ : راہ وَمِنْهَا : اور اس سے جَآئِرٌ : ٹیڑھی وَلَوْ شَآءَ : اور اگر وہ چاہے لَهَدٰىكُمْ : تو وہ تمہیں ہدایت دیتا اَجْمَعِيْنَ : سب
اور سیدھا راستہ تو خدا تک جا پہنچتا ہے اور بعض راستے ٹیڑھے ہیں (وہ اس تک نہیں پہنچتے) اور اگر وہ چاہتا تو تم سب کو سیدھا راستے پر چلا دیتا۔
9۔ جب اللہ پاک نے ان جانوروں کا ذکر کیا جس پر لوگ سوار ہو کر ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ہیں اور دنیا میں رستہ طے کرتے ہیں تو اب دین کے رستوں کا بیان کیا اور فرمایا کہ دو راہیں ہیں۔ ایک تو سیدھی دوسری کج جو سیدھی راہ ہے وہ خدا تک پہنچتی ہے اور جو کج ہے وہ شیطانی راہ ہے انسان کو دوزخ میں لے جاتی ہے۔ سہل سے مراد دین اسلام ہے اور جائر سے بت پرستی وغیرہ۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اللہ چاہتا ہے تو دین اسلام پر چلنے کی توفیق دیتا ہے حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ اس آیت کی تفسیر میں یہ کہتے ہیں کہ اللہ پر ہے حلال و حرام کا بیان کردینا اور اپنی مرضی اور نامرضی کے کاموں کا ذکر کردینا جس کو اس نے آسمانی کتابوں کے ذریعہ سے بیان کردیا اب جس کا جی چاہے جس راہ کو پسند کرے اگر اللہ پاک چاہتا تو سارے جہاں کو ایک سیدھی راہ پر کردیتا اور وہ لوگ حق تک پہنچ جاتے مگر اس کی مشیت اس کی متقضی نہیں ہوئی اس نے راہیں بتلا دیں جس کی طبیعت نیک پیدا ہوئی ہے وہ آپ راہ حق کو قبول کرتا ہے اور جو بدبخت ازلی ہے وہ راہ راست سے بھٹکتا پھرتا ہے اور گمراہی کے رستوں میں پڑا ہوا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کے اس قول کا مطلب یہ ہے کہ آیت میں بیان کا لفظ محذوف ہے گویا اصل آیت وعلی اللہ بیان قصد السبیل ہے۔ جو راستہ آدمی کو مقصد تک پہنچا دیوے عرب کے محاورہ میں اس کو قصہ السبیل کہتے ہیں۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے مغیرہ بن شعبہ ؓ کی حدیث اوپر گزر چکی ہے 1 ؎۔ جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کو انجانی کے عذر کا رفع کردینا بہت پسند ہے۔ اسی لئے اس نے اپنے رسولوں کے ذریعہ سے آسمانی کتابیں بھیج کر تفصیل سے احکام دین بیان فرما دئیے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کا اوپر کا قول اس صحیح حدیث کے موافق ہے۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے حضرت علی ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے 2 ؎۔ کہ دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے علم ازلی کے موافق لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے کہ کون شخص دنیا میں پیدا ہونے کے بعد جنت میں جانے کے قابل کام کرے گا اور کون شخص دوزخ میں جانے کے قابل اب دنیا میں پیدا ہونے کے بعد ہر شخص اس لکھے کے موافق کام کرتا ہے اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ علم الٰہی میں جو لوگ جنت کے قابل ٹھہر چکے ہیں وہ ہمیشہ کجی کی راہ پسند کرتے ہیں اور ان کو مجبور کر کے اللہ تعالیٰ راہ راست پر لانا نہیں چاہتا کیوں کہ انتظام الٰہی کے موافق دنیا نیک و بد کے امتحان کے لئے پیدا کی گئی ہے مجبوری کی حالت میں وہ امتحان کا موافق باقی نہیں رہتا۔ 1 ؎ تفسیر ہذا جلد دو ص 231 و جلد ہذا 310 2 ؎ صحیح بخاری ص 738 ج 2 تفسیر سورة واللیل۔
Top