Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Israa : 11
وَ یَدْعُ الْاِنْسَانُ بِالشَّرِّ دُعَآءَهٗ بِالْخَیْرِ١ؕ وَ كَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا
وَيَدْعُ : اور دعا کرتا ہے الْاِنْسَانُ : انسان بِالشَّرِّ : برائی کی دُعَآءَهٗ : اس کی دعا بِالْخَيْرِ : بھلائی کی وَكَانَ : اور ہے الْاِنْسَانُ : انسان عَجُوْلًا : جلد باز
اور انسان جس طرح (جلدی سے) بھلائی مانگتا ہے اسی طرح برائی مانگتا ہے اور انسان جلد باز (پیدا ہوا) ہے
11:۔ اس آیت میں اللہ پاک نے انسان کی جلدی وشتابی کرنے کا بیان فرمایا کہ اکثر لوگ تنگ ہو کر جس طرح اپنے لیے اچھی دعائیں خدا سے مانگا کرتے ہیں اسی طرح اپنی جان ومال اور اولاد کے لیے بددعا بھی کرنے لگتے ہیں اور خداوند جل وعلا سے اس بات کے خواستگار ہوتے ہیں کہ وہ اس بددعا کو جلدی قبول کرلے مگر اللہ پاک کے فضل کو دیکھئے کہ وہ بددعا انسان کے حق میں قبول نہیں کرتا شاذونادر کبھی ایسا بھی ہوجاتا ہے کہ انسان جیسی فال بد اپنے لیے منہ سے نکالتا ہے ویسا طہور میں آجاتا ہے مگر ہر وقت انسان کی بددعا قبول کی جائے تو کہیں ان کا پتہ بھی نہ لگے اور لطف یہ ہے کہ اس بددعا کرنے کے بعد پھر یہ بھی کہنے لگتے ہیں کہ خدا نے ہماری بددعا قبول کرنے میں دیر لگائی اسی کو اللہ پاک نے ارشاد فرمایا کہ انسان بہت ہی جلد باز ہے۔ صحیح مسلم میں جابر ؓ بن عبداللہ سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا اے لوگو غصہ کی حالت میں تم اپنی جان اور ملک پر بددعا نہ کرو شاید ایسا ہو کہ جس وقت تم بددعا کر رہے ہو وہ وقت قبولیت دعا کا ہو اور وہ تمہاری بددعا قبول ہوجاوے 1 ؎۔ اس حدیث کو آیت کو تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ مسلمان شخص کو غصہ کی حالت میں ہر طرح کی بددعا سے بچنا چاہیے۔ 1 ؎ الترغیب ص /30 ج الترہیب من دعاء الانسان علیٰ نفسہ الخ۔
Top