Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Israa : 18
مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهٗ فِیْهَا مَا نَشَآءُ لِمَنْ نُّرِیْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهٗ جَهَنَّمَ١ۚ یَصْلٰىهَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا
مَنْ : جو کوئی كَانَ يُرِيْدُ : چاہتا ہے الْعَاجِلَةَ : جلدی عَجَّلْنَا : ہم جلد دیدیں گے لَهٗ فِيْهَا : اس کو اس (دنیا) میں مَا نَشَآءُ : جتنا ہم چاہیں لِمَنْ : جس کو نُّرِيْدُ : ہم چاہیں ثُمَّ : پھر جَعَلْنَا : ہم نے بنادیا لَهٗ : اس کے لیے جَهَنَّمَ : جہنم يَصْلٰىهَا : وہ داخل ہوگا اس میں مَذْمُوْمًا : مذمت کیا ہوا مَّدْحُوْرًا : دور کیا ہوا (دھکیلا ہوا)
جو شخص دنیا (کی آسودگی) کا خواہشمند ہو تو ہم اس میں سے جسے چاہتے ہیں اور جتنا چاہتے ہیں جلد دے دیتے ہیں، پھر اس کے لئے جہنم کو (ٹھکانا) مقرر کر رکھا ہے، جس میں وہ نفرین سن کر اور (درگاہ خدا سے) راندہ ہو کر داخل ہوگا
18:۔ حاصل اس آیت اور اس کے آگے کی آیت کا یہی ہے کہ جو شخص فقط دنیا میں پھنس کر دین سے بالکل غافل ہوجاتا ہے اس کو دنیا کچھ زیادہ نہیں ملتی بلکہ اسی قدر ملتی ہے جو اس کے نصیب میں خدا نے لکھی ہے اور جو لوگ دین کے خواہشمند ہیں ان کے اعمال کے قبول ہونے کے لیے آیت میں تین شرطیں ہیں ایک تو آدمی پورا ایماندار ہو کا جس مطلب یہ ہے کہ جو باتیں شریعت میں ایمان لانے کی ہیں ان میں بدعقیدہ نہ ہو دوسرے اس کا عمل آخرت کے ثواب کی غرض سے ہو اس عمل میں دنیا کا دکھاوا اور ریاکاری نہ ہو تیسرے دل کی کوشش سے وہ عمل کیا جاوے اوپرے دل سے رسم کے طور پر نہ کیا جاؤ کے یہ منافقوں کے عمل کی نشانی ہے معتبر سند سے ترمذی میں انس ؓ سے اور ابن ماجہ مسند امام احمد بن حنبل ‘ دارمی میں ناقابل اعتراض سند سے زید بن ؓ ثابت سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص دین سے غافل اور دنیا کا خواہش مند ہے وہ ہمیشہ پریشان حال رہتا ہے اور دنیا مقدر سے بڑھ کر اس کو نہیں ملتی اور جو شخص دین کا طلب گار رہتا ہے اس کا دل ہمیشہ غنی رہتا ہے اور بقدر ضرورت دنیا بھی بلا طلب اس کو ملا کرتی ہے 1 ؎۔ صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نہ تمہاری صورتوں کو دیکھتا ہے 2 ؎۔ معتبر سند سے مسند امام احمد بن حنبل (رح) میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جس شخص کا ٹھکانا دنیا ہے اور دنیا کے لیے جو لوگ روپیہ جمع کرتے ہیں وہ بالکل بےعقل ہیں۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے انس ؓ بن مالک کی روایت ایک جگہ گزر چکی ہے کہ جو لوگ دنیا کی خوشحالی کے نشہ میں عقبیٰ کے منکر ہیں۔ قیامت کے دن جب ایسے لوگوں کو دوزخ میں جھونک دیا جائے گا تو اللہ کے فرشتے ایسے لوگوں کو قتل اور ذلیل کرنے کے لیے ان سے پوچھیں گے کہ دنیا کی جس خوشحالی کے نشہ میں تم لوگ اس دن کے منکر تھے۔ اس عذاب کے آگے ہمیں دنیا کہ خوشحالی بالکل کچھ یاد نہیں 3 ؎۔ ان حدیثوں کو آیت کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ عقبے کے منکر یا عقبے سے غافل لوگوں کو دنیا کی خوشحالی تو اسی قدر ملے گی جو ان کے نصیب میں ہے پھر اس خوشحالی کے نشہ میں جو لوگ عقبیٰ کے منکر ہیں یا عقبیٰ کے اجر کا جن کو پورا یقین نہیں اس لیے وہ جو نیک کام کرتے ہیں وہ خالص دل سے نہیں کرتے ایسے لوگ دنیا میں جو چھوڑ جاویں گے وہ تو رائیگاں ہے اور خوشحالی سے جو کچھ کھاویں پیویں گے عقبے کے عذاب کے آگے وہ حالت ان کو بالکل یاد بھی نہ رہے گی۔ انس بن مالک ؓ کی حدیث میں ایسے لوگوں کے دوزخ میں دھکیل دیئے جانے کا اور دنیا کی چند روزہ خوشحالی کو یاد دلا کر ان کے ذلیل کیے جانے کا جو ذکر ہے اس سے مذموما مدحورا کی تفسیر اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے۔ 1 ؎ ابن ماجہ ص 12 باب الہم بالدنیا 2 ؎ مشکوٰۃ باب الریاء والسمعہ ص 454 3 ؎ تفسیر ہذا جلد سوم ص 320
Top