Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Israa : 41
وَ لَقَدْ صَرَّفْنَا فِیْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لِیَذَّكَّرُوْا١ؕ وَ مَا یَزِیْدُهُمْ اِلَّا نُفُوْرًا
وَ : لَقَدْ صَرَّفْنَا : البتہ ہم نے طرح طرح سے بیان کیا فِيْ : میں هٰذَا الْقُرْاٰنِ : اس قرآن لِيَذَّكَّرُوْا : تاکہ وہ نصیحت پکڑیں وَمَا : اور نہیں يَزِيْدُهُمْ : بڑھتی ان کو اِلَّا : مگر نُفُوْرًا : نفرت
اور ہم نے اس قرآن میں طرح طرح کی باتیں بیان کی ہیں تاکہ لوگ نصیحت پکڑیں مگر وہ اس سے اور بدک جاتے ہیں۔
41:۔ اللہ پاک نے اس آیت میں یہ بیان کیا کہ ہم نے اس قرآن پاک میں جابجا مثالیں اور حکم اور نصیحت اور قصے یہ سب کچھ بیان کیا ہے تاکہ یہ اسے پڑھ کر اور سن کر عبرت پکڑیں اور نصیحت اختیار کریں اور اپنے قول وفعل سے باز آئیں لیکن جن کی طینت میں کفر ونفاق ہے وہ ان باتوں کو سن کر اور بھی دین حق سے نفرت کرتے ہیں اور بھاگتے ہیں اور قرآن پاک کی نسبت یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ انسان کا کلام ہے۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے حضرت علی ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے 1 ؎، کہ دنیا کے پیدا کرنے سے پہلے اپنے علم غیب کے نتیجہ کے طور پر اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں یہ لکھ لیا ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے کے بعد کون شخص دوزخ میں جھونکے جانے کے قابل کام کرے گا اور کون شخص جنت میں جانے کے قابل۔ اسی طرح صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری ؓ کی حدیث بھی گز رچ کی ہے 2 ؎، جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے قرآن کی نصیحت کی مثال مینہ کے پانی کی اور اچھے برے لوگوں کی مثال اچھی بری زمین کی بیان فرمائی ہے۔ ان حدیثوں کو آیت کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ جو لوگ دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں دوزخ میں جھونکے جانے کے قابل قرار پاچکے ہیں وہی لوگ قرآن کے سننے سے نفرت کرتے ہیں کیونکہ ان کے حق میں قرآن کی نصیحت ایسی ہی رائیگاں ہے جیسے بری زمین میں مینہ کا پانی رائیگاں جاتا ہے۔ 1 ؎ تفسیر ہذاص 94 ج 3۔ 2 ؎ تفسیر مذاص 30 ج 3۔
Top