Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Israa : 88
قُلْ لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَ الْجِنُّ عَلٰۤى اَنْ یَّاْتُوْا بِمِثْلِ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَاْتُوْنَ بِمِثْلِهٖ وَ لَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِیْرًا
قُلْ : کہ دیں لَّئِنِ : اگر اجْتَمَعَتِ : جمع ہوجائیں الْاِنْسُ : تمام انسان وَالْجِنُّ : اور جن عَلٰٓي : پر اَنْ : کہ يَّاْتُوْا : وہ بلائیں بِمِثْلِ : مانند هٰذَا الْقُرْاٰنِ : اس قرآن لَا يَاْتُوْنَ : نہ لاسکیں گے بِمِثْلِهٖ : اس کے مانند وَلَوْ كَانَ : اور اگرچہ ہوجائیں بَعْضُهُمْ : ان کے بعض لِبَعْضٍ : بعض کے لیے ظَهِيْرًا : مددگار
کہہ دو کہ اگر انسان اور جن اس بات پر مجتمع ہوں کہ اس قرآن جیسا بنا لائیں تو اس جیسا نہ لاسکیں گے اگرچہ وہ ایک دوسرے کے مددگار ہوں۔
88۔ 89:۔ تفسیر ابن جریر اور ابن اسحاق میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی ایک صحیح روایت سے جو شان نزول اس آیت کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ یہود کے چند علماء نے یہ کہا تھا کہ قرآن شریف کی عبارت تو رات جیسی فصیح نہیں ہے اس لیے ہم چاہیں تو قرآن جیسی عبارت بنا سکتے ہیں اور یہود سے یہ بات سن کر قریش بھی کہا کرتے تھے لونشاء لقلنا مثل ھذا (31/8) جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم چاہیں تو ایسا قرآن بنا سکتے ہیں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور قسم کھا کر فرمایا کہ ساری دنیا بھر کے انسان اور جنات ایک ہوجائیں جب بھی ان سے اس قرآن کے مانند کلام نہیں بن سکتا اس آیت سے قرآن شریف کا معجزہ ہونا اور ایسا معجزہ ہونا ثابت ہوتا ہے جس کے مقابلہ سے جن و انسان عاجز ہیں قرآن شریف کے معجزہ ہونے کی بحث ایک ایسی بڑی بحث ہے جس کی دو چار دس پانچ مثالیں نہیں ہیں بلکہ سینکڑوں ہزاروں ہیں۔ علماء نے اس خاص بحث میں بڑی بڑی کتابیں لکھی ہیں۔ قاضی ابوبکر باقلانی کی کتاب اس باب میں بےمثل مشہور ہے حاصل کلام یہ ہے کہ گذشتہ سچے تاریخی حالات آئندہ کے غیب کے واقعات یہ معنوی معجزات تو قرآن شریف میں جدا ہیں یہ ایک خاص معجزہ قرآن شریف جدا ہے کہ الفاظ قرآن شریف کے وہی ہیں جو اہل عرب کی زبان ہے لیکن ایسی حسن ترتیب کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ان لفظوں کو برتا ہے کہ وہ حسن ترتیب طاقت انسان سے باہر ایک چیز ہے نظم نثر کی جتنی خوبیاں اہل عرب میں مشہور ہیں وہ سب قرآن میں ہیں اور اس خوبی کے ساتھ ہیں کہ تیرہ برس تک مکہ کے فصیح لوگوں سے یہی مقابلہ ہوا کہ اگر یہ کلام الٰہی معجزہ نہیں ہے تو تم بھی اس طرح کا کلام بنا کر لاؤ مگر سب عاجز ہوگئے اور کچھ نہ ہوسکا مستدرک حاکم میں معتبر سند سے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے اس وقت کا ایک تاریخی حال یوں منقول ہے کہ ایک دفعہ ابوجہل نے ولید بن مغیرہ سے کہا کہ ہم سب لوگ چندہ کر کے تم کو بہت سا روپیہ دیتے ہیں تم وہ روپیہ دل جمعی سے بیٹھ کر کھاؤ اور محمد ﷺ جو کلام پڑھتے ہیں اس کے مقابل کا کچھ کلام بناؤ ولید بن مغیرہ نے جواب دیا کہ فصیح انسانوں کے شعر کلام قصیدے تم کو معلوم ہیں کہ کسی کو قریش میں میرے برابر یاد نہیں ہیں لیکن یہ کلام جو محمد پڑھتے ہیں ان سب سے نرالا ہے میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس کلام میں ایسا جادو کا اثر ہے کہ اس کے سننے کے بعد دل قابو میں نہیں رہتا 1 ؎۔ اسی واسطے ابوہریرہ ؓ کی روایت سے مجھ کو توقع ہے کہ قیامت کے دن میری امت کی تعداد سب انبیاء ( علیہ السلام) سے بڑھ کر ہوگی۔ 2 ؎ قرآن شریف کا یہ معجزہ اب بھی سب کے آنکھوں کے سامنے ہے کہ اس ضعف اسلام کے زمانہ میں ہر سال غیر قوموں کے لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوتے رہتے ہیں۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے حضرت علی ؓ کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے 3 ؎۔ کہ دنیا کے پیدا کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے علم غیب کے نتیجہ کے طور پر لوح محفوظ میں یہ لکھ لیا ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے کے بعد کتنے آدمی جنت میں جانے کے قابل کام کریں گے اور کتنے دوزخ میں جھونکے جانے کے قابل اسی طرح صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری ؓ کی حدیث بھی کئی جگہ گزر چکی ہے 4 ؎۔ جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے قرآن کی نصیحت کی مثال مینہ کے پانی کی اور اچھے برے لوگوں کی مثال اچھی بری زمین کی بیان فرمائی ہے یہ حدیثیں آخری آیت کی گویا تفسیر ہیں جس کا حال یہ ہے کہ جو لوگ اللہ کے علم غیب کے موافق دوزخ میں جھونکے جانے کے قابل ٹھہر چکے ہیں، جس قدر قرآن کی آیتوں سے ان لوگوں کو سمجھایا جاتا ہے اسی قدر قرآن کو جھٹلانے پر یہ لوگ آمادہ ہوجاتے ہیں۔ 1 ؎ تفسیر ابن کثیرص 443 تفسیر سورة المدثر۔ 2 ؎ تفسیر ہذاص 211 ج 3۔ 3 ؎ تفسیر ہذاص 90 ج 3۔ 4 ؎ تفسیر ہذاص 30 ج 3۔
Top