بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Kahf : 1
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ عَلٰى عَبْدِهِ الْكِتٰبَ وَ لَمْ یَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًاؕٚ
اَلْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰهِ : اللہ کیلئے الَّذِيْٓ : وہ جس نے اَنْزَلَ : نازل کی عَلٰي عَبْدِهِ : اپنے بندہ پر الْكِتٰبَ : کتاب (قرآن) وَلَمْ يَجْعَلْ : اور نہ رکھی لَّهٗ : اس میں عِوَجًا : کوئی کجی
سب تعریف خدا ہی کو ہے جس نے اپنے بندے (محمد ﷺ پر (یہ) کتاب نازل کی اور اس میں کسی طرح کی کجی اور پیچیدگی نہ رکھی۔
1۔ 5:۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے سمرہ بن جندب کی حدیث سورة بنی اسرائیل کی تفسیر میں گزر چکی ہے جس میں یہ ہے کہ الحمد للہ کا کلمہ اللہ تعالیٰ کو بہت پیارا ہے 1 ؎۔ اس حدیث سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کی بعض سورتوں کے اول میں اور بعض کے آخر میں یہ کلمہ اس لیے فرمایا ہے کہ یہ اللہ کا پیارا کلمہ اس کے نیک بندوں کے منہ سے نکلے اور ان کا عقبے کا بھلا ہوجائے مشرکین مکہ یہ کہتے تھے کہ یہ قرآن محمد ﷺ نے خود بنا لیا ہے انزل علی عبدہ الکتب سے اللہ تعالیٰ نے ان کو چھٹلایا اور فرمایا کہ یہ قرآن اللہ کا کلام ہے جس کو اس نے اپنے بندے اور رسول محمد ﷺ پر نازل فرمایا ہے جس میں کسی طرح کی کچھ کجی نہیں عبارت اس کی ایسی ہے جس کو منکر لوگ بھی جادو کے اثر کی ایک چیز بتلاتے ہیں غیب کی خبریں اور میں کئی ایسی سچی ہیں جو پہلی آسمانی کتابوں میں ہیں پہلی کتابوں کی صداقت اس میں ایسی ہے جو اس کے کلام الٰہی ہونے کی پوری گواہی دیتی ہے۔ معتبر سند سے مستدرک حاکم میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ قرآن شریف کی آیتیں سن کر جب ولید بن مغیرہ کے دل پر اثر ہوا تو اس نے کہا اس کلام میں داود کا سا اثر معلوم ہوتا ہے 2 ؎۔ یہ ولید بن مغیرہ مشرکین مکہ میں بڑا لسان مشہور تھا زیادہ حال اس کا سورة المدثر میں آوے گا۔ اصحاب کہف اور ذوالقرنین کا قصہ جس طرح توریت میں تھا اسی طرح قرآن کے آگے کی آیتوں میں ہے منکر قرآن لوگ قرآن کی عبادت میں جادو کا اثر جو بتلاتے تھے اس کا مطلب حضرت عبداللہ بن عباس کی اوپر کی روایت سے اور قرآن میں پہلی آسمانی کتابوں کی صداقت جو ہے ان قصوں سے اس کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے۔ صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے سب انبیاء کی نبوت کی مثال ایک عالیشان خوبصورت مکان کی بیان کر کے یہ فرمایا ہے کہ اس مکان میں ایک آخری اینٹ کی کسر تھی جو کسر میرے نبی ہونے کے بعد پوری ہوگئی 3 ؎۔ قرآن کو قیما جو فرمایا اس کا مطلب اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف ایسا ٹھیک اتارا جس سے نبوت کا عالیشان محل ٹھیک ہوگیا اب آگے قرآن شریف کے نازل فرمانے کا مقصد بیان فرمایا کہ یہ قرآن نافرمان لوگوں کو دوزخ کے سخت عذاب کا ڈر اور فرمانبر دار لوگوں کو جنت کی خوشخبری سنا دینے کے لیے نازل کیا گیا ہے۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے کئی جگہ روایتیں گزر چکی ہیں کہ نیک عمل کا اجر دس گنے سے لے کر سات سو تک اور بعض نیکیوں کا اجر اس سے بھی زیادہ ہے 4 ؎۔ وہی حدیثیں اجرا حسنا کی گویا تفسیر ہیں صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ اور ابوسعید خدری ؓ کی روایتیں کئی جگہ گزر چکی ہیں کہ جنت میں داخل ہونے کے بعد اللہ کے فرشتے جنتیوں کو ہمیشہ صحت و تندرستی سے جنت میں رہنے کی خوشخبری سنائیں گے 5 ؎۔ یہ روایتیں ماکثین فیہ ابدا کی گویا تفسیر ہیں پھر فرمایا جو لوگ اتنی بڑی جھوٹی بات منہ سے نکالتے ہیں کہ اللہ کو صاحب اولاد ٹھہراتے ہیں ان کے اور ان کے بڑوں کے پاس ان بےٹھکانے باتوں کی کچھ سند نہیں ہے اس لیے ان کو دوزخ کے سخت عذاب کا ڈر سنا دیا جائے۔ صحیح بخاری دوزخ کے عذاب کا جو حال معلوم ہے اگر وہ میں پورا لوگوں کے روبرو بیان کر دوں تو سوائے رونے کے لوگوں سے دنیا کا اور کام نہ ہو سکے 6 ؎۔ اس حدیث سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے کہ قرآن شریف میں جہاں کہیں دوزخ کے سخت عذاب کا آیا ہے اس کی پوری تفسیر علمائے امت کی طاقت سے باہر ہے کیونکہ دنیا کا انتظام قائم رہنے کے لیے اس کا پورا حال اللہ کے رسول نے اللہ کے حکم سے امت کے لوگوں سے بیان نہیں کیا۔ 1 ؎ الترغیب ص 28 ج 1۔ 2 ؎ تفسیر ابن کثیرص 443 ج 4۔ 3 ؎ مشکوٰۃ ص 511 باب فضائل سیدالمرسلین۔ 4 ؎ صحیح بخاری ص 920 ج 2 باب من ہم بحسنتہ اوسیتہ۔ 5 ؎ مشکوٰۃ ص 492 باب صفحتہ الجنتہ واہلہا۔ 6 ؎ مشکوٰۃ ص 456 باب قول النبی ﷺ لوتعلمون ماعلم لضحکتم قلیلا الخ۔
Top