Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Kahf : 103
قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْاَخْسَرِیْنَ اَعْمَالًاؕ
قُلْ : فرمادیں هَلْ : کیا نُنَبِّئُكُمْ : ہم تمہیں بتلائیں بِالْاَخْسَرِيْنَ : بدترین گھاٹے میں اَعْمَالًا : اعمال کے لحاظ سے
کہہ دو کہ ہم تمہیں بتائیں جو عملوں کے لحاظ سے بڑے نقصان میں ہیں
103۔ 107 حضرت علی ؓ سے مستدرک حاکم اور تفسیر ابن مردویہ وغیرہ میں یہ جو روایت ہے کہ یہ آیت خارجی لوگوں کی شان میں ہے یا حضرت سعد بن ابی وقاص سے صحیح بخاری اور نسائی میں یہ جو روایت ہے کہ یہ آیت یہود و نصاری کی شان میں ہے ان روایتوں کے یہ معنی نہیں ہیں کہ خارجیوں یا یہودو نصاری کی شان میں یہ آیت نازل ہوئی ہے کیونکہ یہ آیت مکی ہے اور جب تک آنحضرت ﷺ مکہ میں تھے تو نہ یہود و نصاری سے آپ کو کچھ واسطہ تھا نہ قرآن شریف یہود و نصاری کی شان میں نازل ہوتا تھا یہودو نصاری سے جو کچھ واسطہ آپ کو پیدا ہوا ہے وہ آپ کے مدینہ تشریف لانے کے بعد پیدا ہوا ہے اور خارجی لوگ تو آنحضرت کے بعد حضرت علی ؓ کی خلافت کے زمانہ میں ظاہر ہوئے ہیں اس لیے حضرت علی ؓ اور حضرت سعد بن ابی وقاص کی روایت کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ یہ آیت مکی ہے اور کفار مکہ کی شان میں نازل ہوئی ہے لیکن مضمون آیت کا ایسا عام ہے کہ توراۃ اور انجیل کی مخالفت کے سبب سے یہود اور نصاری پر اور قرآن شریف کی مخالفت کر کے صاحب کبیرہ گناہ کو کافر بتلانے سے خارجیوں پر سب پر آیت کا مضمون صادق آتا ہے۔ حضرت علی ؓ اور سعد بن ابی وقاص کے اس قول کی تائید میں حضرت ثوبان ؓ کی وہ صحیح حدیث ہے جس کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے 1 ؎۔ حاصل اس حدیث کا یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا بعضے لوگ میری امت کے قیامت کے روز پہاڑ کے برابر نیک عمل رکھتے ہوں گے مگر ان کے سب عمل اللہ تعالیٰ ایسے اکارت کر دے گا جیسے ہوا میں ریت اڑ جاتی ہے حضرت ثوبان ؓ نے عرض کیا کہ ایسے لوگوں کی کچھ نشانی تو فرمائیے ایسا نہ ہو کہ انجانی میں ہم لوگوں میں بھی ان کی سی عادتیں پیدا ہوجاویں آپ نے فرمایا کہ وہ لوگ بھی تمہارے بھائی مسلمان ہوں گے مگر گناہوں سے بچنے کی ان کو پرواہ نہ ہوگی۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آیت میں نیک عمل کا اکارت ہونے کا جو ذکر ہے وہ نہ مشرکین کے ساتھ مخصوص ہے نہ یہود و نصاری وخارجیوں کے ساتھ بلکہ جو عمل اللہ کی مرضی کے مخالف ہوں گے خواہ کسی فرقہ کے ہوں ان کو اللہ تعالیٰ اکارت کرے گا اور عمل کے مرضی الٰہی کے موافق نہ ہونے کی یہی صورتیں ہیں کہ خرابی عقیدہ کے سبب سے یا تو عمل اصول شرعیہ کے موافق نہ ہوں جس طرح اہل کفر اہل نفاق اہل بدعت کے عمل یا وہ عمل اصول شرع کے موافق تو ہوں لیکن خاص اللہ کے واسطے نہ ہوں جس طرح ریا کاروں کے عمل یہ سب عمل آیت کے حکم میں داخل ہیں۔ چناچہ اور حدیثوں میں بھی اہل بدعت اور ریا کاروں کے عمل نیک کے اکارت ہونے کی صراحت صاف لفظوں میں آئی ہے۔ چناچہ معتبر سند سے مسند امام احمد بن حنبل (رح) میں محمود بن لبید سے اور صحیح ابن حبان میں سعید بن فضالہ سے روایت ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جب قیامت کے روز سب لوگ جمع ہوں گے تو حساب کتاب سے پہلے ہی ایک فرشتہ پکارے گا کہ جس کسی نے دنیا کے دکھاوے کے لیے کوئی نیک کام کیا ہے اس کے ثواب کی امید خدا کی درگاہ سے بےسود ہے۔ ایسے نیک کام کا اجر اس سے مانگنا چاہیے جس کے دکھانے کو وہ نیک کام کیا گیا ہے 2 ؎۔ صحیح بخاری ومسلم میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے جو کچھ فرمایا اس کا حاصل یہ چاہئے کہ جو نیک عمل شرعی حکم کے موافق نہ ہوگا وہ اکارت ہے 3 ؎۔ ان روایتوں سے ثوبان ؓ کی روایت کی پوری تائید ہوتی ہے کیونکہ ثوبان ؓ کی روایت میں ان لوگوں کے نیک عملوں کے رائیگاں ہوجانے کا ذکر ہے جو لوگ گناہوں سے بچنے کی پرواہ نہیں کرتے اب یہ تو ظاہر بات ہے کہ جو لوگ عام گناہوں سے بچنے کی پروانہ کریں گے وہ ریا کاری اور بدعت سے بچنے کی کیا پروا کرسکتے ہیں۔ حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ یہ مشرکین مکہ اٹکل کے طور پر اپنے طریقہ کو اچھا جان کر اے رسول اللہ کے تم سے طرح طرح کی جھگڑے کی باتیں جو نکالتے ہیں اور یہود سے پوچھ پوچھ کر تم سے طرح طرح کی باتوں کے سوالات کرتے ہیں اور عقبیٰ کی جزا و سزا کے انکار کے سبب سے ان نیک عملوں کو رائیگاں گنتے ہیں جو عمل عقبیٰ کے اجر کی نیت سے کیے جاتے ہیں تو اے رسول اللہ کے تم ان لوگوں سے کہہ دو کہ جن لوگوں کے نیک عمل اکارت ہیں وہ ایسے لوگ ہیں جن کے سارے کاموں کا دارو مدار دنیا کی زندگی پر ہے اور اسی کو وہ اچھا جان کر عقبیٰ کی سزا و جزا کی قرآن کی آیتوں کو مسخراپن میں اڑاتے ہیں اور قرآن کی آیتوں اور اللہ کے رسول ﷺ کی نصیحت کے نہ ماننے پر ہر وقت کمر باندھے رہتے ہیں ایسے عقبیٰ کی جزا کے منکر لوگ اگر کوئی نیک کام کرتے بھی ہیں تو دنیا کی نمود کے طور پر کرتے ہی اس واسطے ایسے لوگوں کے نیک عملوں کا جو بدلہ ہے وہ ان کو دنیا ہی میں مل جاتا ہے کہ ان کی دنیا اچھی کٹتی ہے اور آخرت کے اجر حساب سے ان کے عمل رائیگاں ہیں اس لیے قیامت کے دن ان کے عملوں کے تولنے کے لیے ترازو بھی نہ کھڑی کی جائے گی کیونکہ ترازو تو ایسے لوگوں کے عملوں کے تولنے کے لیے کھڑی کی جائے گی جن کی نیکی کے پلہ میں چڑہانے کے لیے کچھ نیک عمل بھی ہوں گے جن کے نیک عملوں کا بدلہ دنیا کی زندگی میں مل گیا اور قیامت کے دن کے لیے ان کا کوئی نیک عمل باقی نہیں رہا ان کے عملوں کے لیے ترازو کیا کھڑی کی جاسکتی ہے اگر ہوگا تو بعضے سلف کے قول کے موافق اتنا ہی ہوگا کہ ایسے لوگوں کے قائل کرنے کے لیے ہڈی کے پلڑے میں ان کے بداعمال رکھے جاکر نیکی کا خالی پلڑا ان کو دکھا دیا جائے گا غرض کہ ایسے لوگوں کے نیک عمل عقبیٰ کے اجر کے حساب سے اکارت ہو کر فقط بدعمل باقی رہ جائیں گے جن کی سزا بھگتنے کے لیے ایسے لوگوں کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ صحیح مسلم میں انس بن مالک سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا حشر کے منکر لوگ جو دنیا میں کچھ نیک عمل کرتے ہیں تو اس کا بدلہ ان کو یہیں دنیا میں مل جاتا ہے عقبیٰ کے اجر کے لیے ان کا نیک عمل نہیں رکھا جاتا۔ سورة الاعراف میں گزر چکا ہے کہ عملوں کے تولے جانے کے بعد جن کے نیک عملوں کا پلڑا بھاری ہوگا وہ جنتی قرار پائیں گے اور جن کا بدعملوں کا پلڑا بھاری ہوگا وہ دوزخ میں جاویں گے اور جن کے نیک عمل اور بدعمل برابر ہوں گے ان کو جنتیوں اور دوزخیوں کے فیصلہ آخر تک جنت اور دوزخ کے درمیان کی دیوار پر کھڑا کردیا جائے گا پھر آخر کو یہ لوگ بھی جنت میں چلے جائیں گے حاصل کلام یہ ہے کہ جن لوگوں کا یہاں ذکر ہے۔ انس بن مالک کی حدیث کے موافق ان کا کوئی نیک عمل عقبیٰ کے اجر کے لیے باقی نہ رہے گا اس لیے سورة الاعراف کی آیتوں کے موافق یہ لوگ دوزخی قرار پائیں گے۔ 1 ؎ سنن ابن ماجہ باب ذکر الذنوب (کتاب الزہد) 2 ؎ تفسیر ہذاص 82 ج 3 و تفسیر ابن کثیرص 109 ج 3 3 ؎ مشکوٰۃ باب الاعتصام بالکتاب السنتہ
Top