Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Kahf : 108
خٰلِدِیْنَ فِیْهَا لَا یَبْغُوْنَ عَنْهَا حِوَلًا
خٰلِدِيْنَ : ہمیشہ رہیں گے فِيْهَا : اس میں لَا يَبْغُوْنَ : وہ نہ چاہیں گے عَنْهَا : وہاں سے حِوَلًا : جگہ بدلنا
ہمیشہ ان میں رہیں گے (اور) وہاں سے مکان بدلنا نہ چاہیں گے
108۔ اوپر ذکر تھا کہ عقبیٰ کے اجر کے حساب سے منکرین حشر کے سارے نیک عمل اس واسطے اکارت ہیں کہ یہ لوگ حشر اور اس دن کی سزا و جزا کے قائل نہیں ریا کاروں اور بددعا کے اس قدر نیک عمل اکارت ہیں جن میں ریا کاری اور بدعت کا دخل ہے کیونکہ ریا کاری کے نیک عمل دنیا کے دکھاوے کے لیے کیے ہیں اور بدعت کے دخل کے عمل شریعت کے حکم کے موافق نہیں ہیں ان آیتوں میں فرمایا جن لوگوں کے نیک عملوں کے بدلہ میں جنت الفردوس دی جائے گی وہ ایسے لوگ ہیں جو اللہ کی وحدانیت کا اور اللہ کے رسول کے سچے ہونے کے یقین دل میں رکھتے ہیں اور زبان سے اس کا اقرار اور اس یقین اور اقرار کے موافق ہاتھ پیروں سے نیک عمل بھی کرتے ہیں۔ صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا فردوس اعلی درجہ کی جنت ہے 1 ؎ اس میں سے جنت کی نہریں نکلی ہیں اور اسی کے اوپر اللہ تعالیٰ کا عرش ہے جب تم جنت کے ملنے کی دعا اللہ تعالیٰ سے کیا کرو تو اسی جنت کی دعا مانگا کرو جنت کی نہریں دودھ شہد شراب اور پانی کی ہیں جن کا ذکر سورة محمد میں آئے گا۔ ترمذی میں معاذ بن جبل ؓ کی صحیح روایت ہے کہ جنت کے سو درجہ ہیں جن میں فردوس اعلیٰ درجہ کی جنت ہے 2 ؎۔ ان روایتوں سے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے کہ فردوس اعلیٰ درجہ کی جنت ہے۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی روایت سے حدیث قدسی کئی جگہ گزر چکی ہے۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا نیک لوگوں کے لیے میں نے جنت میں وہ نعمتیں پیدا کی ہیں جو کسی نے نہ آنکھوں سے دیکھیں نہ کانوں سے سنین نہ کسی کے دل میں ان کا خیال گزر سکتا ہے 3 ؎۔ ان آیتوں میں یہ جو فرمایا کہ جنتی لوگ جنت میں ہمیشہ اس طرح رہیں گے کہ وہاں کے رہنے سے اکتا کر کسی دوسری جگہ چلے جانے کو ان کا دل نہ چاہے گا اس کا مطلب اس حدیث قدسی سے اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جنت کی نعمتوں کے سبب سے کسی کا دل اس کو چھوڑنے کو نہ چاہے گا۔ 1 ؎ تفسیر الدر المنثورص 254 ج 4 2 ؎ جامع ترمذی ص 76 باب جاء فی درجات الجنۃ 3 ؎ تفسر ہذاص 12 ج 3
Top