Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Kahf : 110
قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ یُوْحٰۤى اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ١ۚ فَمَنْ كَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّهٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖۤ اَحَدًا۠   ۧ
قُلْ : فرما دیں اِنَّمَآ اَنَا : اس کے سوا نہیں میں بَشَرٌ : بشر مِّثْلُكُمْ : تم جیسا يُوْحٰٓى : وحی کی جاتی ہے اِلَيَّ : میری طرف اَنَّمَآ : فقط اِلٰهُكُمْ : تمہارا معبود اِلٰهٌ : معبود وَّاحِدٌ : واحد فَمَنْ : سو جو كَانَ : ہو يَرْجُوْا : امید رکھتا ہے لِقَآءَ : ملاقات رَبِّهٖ : اپنا رب فَلْيَعْمَلْ : تو اسے چاہیے کہ وہ عمل کرے عَمَلًا : عمل صَالِحًا : اچھے وَّ : اور لَا يُشْرِكْ : وہ شریک نہ کرے بِعِبَادَةِ : عبادت میں رَبِّهٖٓ : اپنا رب اَحَدًا : کسی کو
کہہ دو کہ میں تمہاری طرح کا ایک بشر ہوں (البتہ) میری طرف وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود (وہی) ایک معبود ہے تو جو شخص اپنے پروردگار سے ملنے کی امید رکھے چاہئے کہ عمل نیک کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے
110۔ اصحاب کہف اور ذوالقرنین کا قصہ بیان کرنے کے بعد مشرکین مکہ کے قائل کرنے کے لیے فرمایا اے رسول اللہ کے تم ان لوگوں سے کہہ دو کہ بشر ہونے میں تم اور میں برابر ہیں پھر تم لوگوں کو کیا اتنی سمجھ نہیں کہ بغیر پڑھے لکھے یہ غیب کے قصے میں اس طرح سے کیونکر بیان کرسکتا ہوں جو پچھلی آسمانی کتابوں کے موافق ہیں اور جو بات میں تم لوگوں کو آسمانی وحی کے موافق سمجھتا ہوں وہ بھی ہر شخص کی سمجھ میں آجانے کی بات ہے کہ جب اللہ نے تم کو تمہاری سب ضرورت کی چیزوں کو اس طرح سے پیدا کیا کہ اس میں کوئی اس کا شریک تم ثابت نہیں کرسکتے تو پھر اس وحدہ لاشریک کا تعظیم میں شریک ٹھہرانا بڑے وبال کی بات ہے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے عبد اللہ بن مسعود ؓ کی روایت کئی جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا شرک سے بڑھ کر دنیا میں کوئی گناہ نہیں 1 ؎۔ اس حدیث کو آیت کے اس ٹکڑے کے ساتھ ملانے سے وہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے جو اوپر بیان کیا گیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے انسان کو انسان کی سب ضرورت کی چیزوں کو اس طرح سے پیدا کیا کہ اس میں کوئی اس کا شریک نہیں تو پھر یہ بات ہر شخص کی سمجھ میں آجانے کے قابل ہے کہ اس وحدہ لاشریک کی تعظیم میں دوسروں کو شریک ٹھہرانا اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس سے بڑھ کر دنیا میں کوئی دوسرا گناہ نہیں۔ صحیح سند سے مستدرک حاکم اور تفسیر ابن ابی حاتم وغیرہ میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت سے جو شان نزول اس آیت کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ ایک شخص ثواب آخرت کے خیال سے تو نماز روزہ اور نیک کام کرے لیکن کسی قدر اس کے دل میں یہ بھی خواہش ہو کہ لوگ اس کے نیک کام کی تعریف کریں اور اس کو بڑا نیک گمان کریں ایسے شحص کی شان میں یہ آیت نازل ہوئی ہے 2 ؎۔ حاصل معنی آیت کے یہ ہیں کہ جس شخص کو مرنے کے بعد پھر جینے اور اللہ تعالیٰ کے روبرو حساب کتاب اور سزاو جزا کے لیے کھڑے ہونے کا پورا یقین ہے اور اس یقین کے سبب سے اس امید پر وہ نیک کام کرتا ہے کہ ایک دن اللہ کی درگاہ سے اس نیک کام کی جزا پائے گا۔ تو ایسے شخص کو چاہیے کہ اس طرح خالص نیت سے نیک عمل کرے کہ اس عمل میں سوا خدا کے کسی دوسرے کے دکھاوے کی کسی طرح کی شراکت نہ ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر طرح کے شرک سے بیزار ہے غرض بہت سی آیات قرآنی اور احادیث سے نیک عمل کے مقبول ہونے کی دو شرطیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ عمل قواعد شرعیہ کی بنا پر صحیح ہو عقیدہ کی خرابی سے بلا اجازت شرع کے بدعت کے طور پر ایجاد کیا ہوا نہ ہو کیوں کہ اس طرح کا ایجادی عمل شرعی عمل ہی جب نہیں ہے تو شارع سے اس کے اجر کی توقع بےسود ہے۔ دوسرے دنیا کے دکھاوے یا نیک کہلانے کی شہرت کا اس میں کچھ دخل نہ ہو ہاں یہ بات اور ہے کہ عمل کرنے والے کی نیت خالص ثواب آخرت کے ہے کسی طرح کی دنیا کے دکھاوے یا نیک کہلانے کی شہرت کا اس کی نیت میں لگاؤ یا دخل نہیں ہے۔ لیکن اپنے طور پر لوگ اس کی نیکی کے سبب سے اس کو عزیز رکھتے ہیں تو یہ اللہ کی ایک نعمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو دنیا میں دی ہے۔ صحیح مسلم میں ابوذر ؓ سے روایت ہے۔ کہ آنحضرت ﷺ سے کسی نے پوچھا حضرت ایک شخص بغیر خیال شہرت دنیا کے نیک نیتی سے نیک عمل کرتا ہے اور لوگ اپنے طور پر اس کی تعریف کرتے ہیں یا اس کو عزیز رکھتے ہیں تو ایسے شخص کے باب میں آپ کیا فرماتے ہیں آپ نے فرمایا اس طرح کے مومن کے حق میں یہ اللہ کی دنیا میں پیشگی خوش خبری ہے کہ اللہ تعالیٰ آخرت میں اس شخص سے راضی رہے گا۔ یہ فیصلہ آدمی اپنے دل سے پوچھ کر کرسکتا ہے کہ اس کی نیت کیا تھی اس کی خواہش کو کچھ دخل تھا یا نہیں۔ اگر دخل تھا تو جس عمل پر شہرت ہوئی ہے وہ بالکل اکارت ہے اور اگر نیت خالص تھی تو صحیح حدیث کی رو سے وہ شہرت بلاشک اللہ کی ایک نعمت ہے علاوہ اس نعمت کے دنیا میں اور یہی نعمتیں اللہ تعالیٰ نے اس طرح کے خالص نیت کے عمل کرنے والوں کے لیے رکھی ہیں جن کا ذکر صحیحین کی صحیح حدیثوں میں آیا ہے کہ نیک عمل کا ثواب اور اجر دس سے سات سو تک اور کبھی سات سو سے بھی بڑھ کر لکھا جاتا ہے 3 ؎۔ اور اللہ کے فرشتوں کا جان کنی کے وقت اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور جنت کے عیش و آرام کی اس طرح کی خوشخبری منانا کہ اس کی اس طرح پوری تصویر کا آنکھوں کے سامنے آجانا جس سے جان کنی کی تکلیف دنیا کے چھوٹنے بال بچوں سے جدا ہونے کا رنج سب رفع ہوجائے حاصل کلام یہ کہ اگر آدمی کا نیک عمل قواعد شرع کی رو سے صحیح ہے اور خالص اللہ کے واسطے ہے تو سب کچھ ہیں، نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ ترمذی اور ابن ماجہ میں حضرت شدار بن اوس سے صحیح روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ سب سے زیادہ درماندہ اور عاجز اور مصیبت زدہ قیامت کے دن وہ شخص ہے جو بغیر اجازت شرع کے اپنی مرضی کے موافق دنیا میں عمل کرے اور خواہ مخواہ اللہ تعالیٰ سے اجر اور ثواب کی توقع رکھے 4 ؎۔ سورة کہف ختم ہوئی۔ 1 ؎ مشکوٰۃ ص 16 باب الکبائر الخ 2 ؎ تفسیر الدرا لمنثورص 655 ج 4 3 ؎ صحیح بخاری۔ 96 ج بہاب من ہم بحتہ اوسئیتہ۔ 4 ؎ تفسیر ہذاص 51 ج 3
Top