Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Kahf : 83
وَ یَسْئَلُوْنَكَ عَنْ ذِی الْقَرْنَیْنِ١ؕ قُلْ سَاَتْلُوْا عَلَیْكُمْ مِّنْهُ ذِكْرًاؕ
وَيَسْئَلُوْنَكَ : اور آپ سے پوچھتے ہیں عَنْ : سے (بابت) ذِي الْقَرْنَيْنِ : ذوالقرنین قُلْ : فرمادیں سَاَتْلُوْا : ابھی پڑھتا ہوں عَلَيْكُمْ : تم پر۔ سامنے مِّنْهُ : اس سے۔ کا ذِكْرًا : کچھ حال
اور تم سے ذوالقرنین کے بارے میں دریافت کرتے ہیں کہہ دو کہ میں اس کا کسی قدر حال تمہیں پڑھ کر سناتا ہوں
83۔ 86:۔ شروع سورة ایک تفسیر میں گزر چکا ہے کہ یہود کے سکھانے سے مشرکین مکہ نے روح اصحاب کہف اور سکندر القرنین مصری اور سکندر رومی کا ایک ہونا پایا جاتا ہے 1 ؎ اور اسی روایت کی بنا پر تفسیر ابن جریر کے علاوہ بعض اور تفسیروں میں یہی لکھا ہے کہ قرآن شریف میں جس شخص کا قصہ ہے وہ سکندر رومی ہے لیکن حافظ ابن کثیر (رح) نے عقبہ بن عامر ؓ کی اسی روایت کو ضعیف ٹھہرا کر معتبر اہل تاریخ مثلا سہیلی ارزقی کے قول کے موافق اسی بات کو ترجیح دی ہے کہ سکندر دو شخص گزرے ہیں پہلا سکندر ذوالقرنین جس کا ذکر قرآن شریف میں ہے اس سکندر اور حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کا زمانہ ایک ہی ہے یہ سکندر ملت ابراہیمی کا پابند شخص تھا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ اس شخص نے حج ادا کیا ہے اس سکندر کے وزیر خضر (علیہ السلام) تھے دوسرا سکندر رومی ہے جس کا وزیر ارسطو تھا یہ عیسیٰ (علیہ السلام) سے تین سو برس پہلے ہوا ہے یہ سکندر ثانی اور اس کا وزیر ارسطو بت پرست لوگ تھے 2 ؎۔ تاریخی قصے لکھے گئے ہیں بنی اسرئیلی رواتیں نہیں لی گئی ہیں اسی طرح سہیلی قدیمی تاریخوں کے حافظ علماء اندلس میں مشہور ہیں اس واسطے قرآن شریف کی تفسیر میں ایسے ہی لوگوں کا قول معتبر قرار پاسکتا ہے کیونکہ قرآن شریف میں جس شخص کا قصہ ہے اس میں یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ایک مشرک قوم کو اس کے قابو میں کردیا تو اس نے اس قوم کو یہ حکم سنایا کہ اس قوم میں کے جو لوگ شرک پر قائم رہیں گے ان کو دنیا میں طرح طرح کے عذاب سے قتل کیا جائے گا اور عقبیٰ میں ایسے لوگوں پر اللہ تعالیٰ جدا سخت عذاب کرے گا اور اس قوم کے جو لوگ خالص اللہ تعالیٰ کی عبادت کے قائل ہو کر عقبیٰ کی بہبودی کے لیے نیک عمل کریں گے دنیا میں ہم لوگ بھی ان سے اچھی طرح پیش آئیں گے اور عقبیٰ میں ایسے لوگوں کو بڑا اجر ملے گا قرآن شریف کی ان آیتوں سے یقینی طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص کا قصہ قرآن شریف میں ہے وہ خالص اللہ تعالیٰ کی عبادت قیامت ملت ابرہیمی کے نیک عمل ان سب باتوں کا قائل تھا اس لیے اس سکندر اول اور بت پرست سکندر ثانی کو ایک ٹھہرانا قرآن شریف کی آیتوں اور معتبر علمائے اسلام کے قول کے برخلاف ہے۔ تفسیر عبدالرزاق تفسیر ابن منذر اور مستدرک حاکم میں ابوہریرہ ؓ سے صحیح روایت ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا مجھ کو معلوم نہیں کہ تبع اور ذوالقرنین نبی تھے یا نہیں 3 ؎ اس حدیث سے بھی سہیلی ارزقی اور حافظ ابن کثیر کے اس قول کی پوری تائید ہوتی ہے کہ قرآن شریف میں سکندر رومی کا قصہ نہیں ہے کس لیے قرآن شریف میں ذوالقرنین کے نام سے قصہ آیا ہے اگر ذوالقرنین اور بت پرست سکندر رومی ایک ہوتے تو بت پرست سکندر ثانی کی نبوت کا شبہ اللہ کے رسول ﷺ کو ہرگز نہ ہوتا فتح الباری میں کئی سند سے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کا قول ہے جس میں ذوالقرنین کا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے ملاقات کرنے اور اسی زمانہ میں حج کرنے کا ذکر ہے 4 ؎۔ سیرہ ابن اسحاق میں ہے ذوالقرنین کا نام سکندر ہے ان روایتوں سے بھی پہلی ارزقی اور حافظ ابن کثیر کے قول کی پوری تائید ہوتی ہے کہ سکندر دو شحص گزرے ہیں کیونکہ سکندر رومی اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانہ میں دو ہزار برس سے زیادہ کی مدت کا فرق ہے پھر یہ سکندر ثانی حضرت ابرہیم (علیہ السلام) کے زمانہ میں کہاں سے آسکتا ہے محمد بن مسلم ابن شہاب زہری کا قول ہے کہ اس سکندر اول نے سورج کی غربی اور شرقی دونوں شعاعوں کے نیچے بہت دور تک کا سفر کیا اس لیے اس کا نام ذوالقرنین ہوگیا۔ یہ ابن شہاب زہری بڑے ثقہ اور مشہور تابعی ہیں اور حدیث کی سب کتابوں میں ان سے روایت ہے قرآن کے معنے سینگ کے ہیں یہاں سورج کی غربی اور شرقی دونوں شعاعوں کو سورج کے سینگ قرار دیا گیا ہے۔ ان آیتوں میں فرمایا اے رسول اللہ کے یہ مشرکین مکہ تم سے ذوالقرنین کا حال جو پوچھتے ہیں تو تم ان لوگوں سے کہہ دو کہ میں تم لوگوں کو اس کا قصہ سناتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو روئے زمین کی بادشاہت دی تھی اور ہر طرح بادشاہت کا سامان اس کو عنایت کیا تھا جس سامان کو کام میں لاکر اس نے زمین کی غربی جانب کا سفر کیا اور اس کو یہ معلوم ہوا کہ ایک دلدل کے چشمہ میں سورج غروب ہوتا ہے مطلب یہ ہے کہ جس طرح کشتی کے بیٹھنے والے شخص کو غروب کے وقت یہ دنیا ہے کہ دریا کے کنارے پر سورج غروب ہوجاتا ہے۔ یا ایک قلعہ کے رہنے والے شخص کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ قلعہ کی دیوار کے پیچھے سورج غروب ہوجاتا ہے اسی طرح سکندر کو یہ دکھائی دیا کہ اس دلدل کے چشمہ میں سورج غروب ہوتا ہے ورنہ سورج تو ساری زمین سے کئی حصہ بڑا ہے زمین کے اتنے ٹکڑے میں جس میں کہ دلدل کا چشمہ ہے اس قدر گنجائش کہاں ہے کہ اس میں سورج چھپ جائے علاوہ اس کے سورج آسمان پر ہے اور یہ دلدل کا چشمہ زمین پر پھر سورج کا آسمان سے اتر کر زمین کے اس دلدل کے چشمہ میں غروب ہونا کیوں کر اس کے موافق ہے اللہ کے رسول ﷺ نے سورج کی چال کی تفسیر یوں فرمائی ہے سورج لوگوں کی نگاہ سے اوجھل ہوجانے کے بعد عرش معلی کے نیچے جاکر سجدہ کرتا ہے اور دوسرے دن مشرق سے نکلنے کی اس کو اجازت ہوجاتی ہے ہاں قیامت کے قریب اس کو مغرب سے نکلنے کا حکم ہوگا یہ حدیث صحیح بخاری مسلم نسائی وغیرہ میں ابوذر ؓ کی روایت سے آئی ہے 5 ؎۔ اس حدیث کو آیتوں کے ساتھ ملانے سے وہی مطلب ہوا جو اوپر بیان کیا گیا کہ دلدل کے چشمے کے پاس جاکر سورج سکندر کی نگاہ سے اوجھل ہوگیا اور پھر اللہ تعالیٰ کی ٹھہرائی ہوئی چال کے موافق وہاں سے جو اوپر بیان کیا گیا کہ اس دلدل کے چشمہ کے پاس اللہ تعالیٰ نے ایک مشرک قوم کو سکندر کے قابو میں کردیا تو سکندر نے اس قوم کو یہ حکم سنایا کہ اس قوم میں کے جو لوگ شرک پر جمے رہیں گے ان کو دنیا میں طرح طرح کے عذاب سے قتل کیا جائے گا الور عقبیٰ میں ایسے لوگوں پر اللہ تعالیٰ جدا سخت عذاب کرے گا اور اس قوم میں کے جو لوگ خالص اللہ تعالیٰ کی عبادت کے قائل ہو کر عقبیٰ کی بہبودی کی نیت سے نیک عمل کریں گے دنیا میں ہم لوگ بھی ان سے اچھی طرح پیش آئیں گے اور عقبیٰ میں بھی ان کو بڑا اجر ملے گا۔ مجاہد اور سفیان ثوری کا قول ہے کہ تمام روئے زمین کی بادشاہت چار شخصوں کو ملی ہے جس میں سلیمان (علیہ السلام) اور ذوالقرنین ایماندار تھے اور نمرود اور بخت نصر کافر۔ 1 ؎ تفسیر ابن جریرص 8 ص ج 16 2 ؎ تفسیر ابن کثیرص 100 ج 3۔ 3 ؎ تفسیر الدر المنثور ص 240 ج 4 4 ؎ ص 228 ج 3 باب قصہ یا جوج ما جوج۔ 5 ؎ مشکوٰۃ ص 472 باب العلامات بین یدی الساعۃ وذکر الدجال۔
Top