Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Kahf : 87
قَالَ اَمَّا مَنْ ظَلَمَ فَسَوْفَ نُعَذِّبُهٗ ثُمَّ یُرَدُّ اِلٰى رَبِّهٖ فَیُعَذِّبُهٗ عَذَابًا نُّكْرًا
قَالَ : اس نے کہا اَمَّا : اچھا مَنْ ظَلَمَ : جس نے ظلم کیا فَسَوْفَ : تو جلد نُعَذِّبُهٗ : ہم اسے سزا دیں گے ثُمَّ : پھر يُرَدُّ : وہ لوٹایا جائیگا اِلٰى رَبِّهٖ : اپنے رب کی طرف فَيُعَذِّبُهٗ : تو وہ اسے عذاب دے گا عَذَابًا : عذاب نُّكْرًا : بڑا۔ سخت
(ذوالقرنین) نے کہا کہ جو (کفر و بدکاری سے) ظلم کرے گا اسے ہم عذاب دیں گے پھر (جب) وہ اپنے پروردگار کی طرف لوٹایا جائے گا تو وہ بھی اسے برا عذاب دے گا
87۔ 89:۔ مغرب کی طرف کے سفر سے فارغ ہو کر ذوالقرنین نے مشرق کی طرف کا جو سفر کیا ان آیتوں میں اس کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے روئے زمین کی بادشاہت کا سامان جو ذوالقرنین کو دیا تھا اس سامان کو کام میں لاکر مغرب کی طرف کے سفر کے بعد اس نے مشرق کی طرف کا سفر کیا اور ایسی سر زمین پر پہنچا جہاں پہلے پہلے سورج نکلتا ہے اور وہاں اس نے ایک ایسی قوم کو دیکھا کہ جن کے لیے سورج کی دھوپ سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے کوئی آڑ نہیں بنائی مطلب یہ ہے کہ اس سرزمین پر نہ قدرتی کچھ پہاڑو درخت ایسے ہیں کہ ان کی آڑ میں وہ لوگ دھوپ سے بچ سکیں نہ وحشی پن کے سبب سے اتنی عقل ان لوگوں میں ہے کہ وہ مکان بنادیں زمین میں سرنگیں کھود رکھی ہیں دھوپ کے وقت ان میں گھس جاتے ہیں اور ٹھنڈے وقت ان سرنگوں سے نکل کر دنیا کا کچھ کام دھندہ کرلیتے ہیں قتادہ کا قول ہے کہ یہ سرزمین جشیوں کی آخری سرحد پر ہے کذالک اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اور ملکوں میں اللہ تعالیٰ نے پہاڑ اور دھوپ سے بچنے کی آڑ کے لیے پیدا کیے ہیں اس زمین پر نہیں ہیں اور نہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو اتنی عقل دی ہے کہ مکان بنا کر دھوپ سے بچ جائیں بعضے مفسروں نے کذالک کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ ذوالقرنین نے جو حکم مغرب کی طرف کے سفر میں مشرک قوم کو سنایا تھا وہی حکم اس مشرقی قوم کو سنایا کہ اس قوم میں کے جو لوگ شرک پر اڑے رہیں گے ان کو دنیا میں طرح طرح کے عذاب سے قتل کیا جائے گا اور عقبیٰ میں بھی ایسے بہبودی کی نیت سے نیک عمل کریں گے دنیا میں ہم لوگ بھی ان سے اچھی طرح پیش آئیں گے اور عقبیٰ میں بھی ان کو بڑا اجر ملے گا۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے 1 ؎۔ کہ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے ‘ اپنے علم غیب کے نتیجہ کے طور پر دنیا کے پیدا کرنے سے پچاس ہزار برس پہلے وہ سب اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے یہ حدیث وقد احطنا بما لدیہ خبرا کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ذوالقرنین کے پاس جو کچھ اتنے بڑے سفر کا سامان تھا اور جو کچھ اس سفر میں اس نے عجائبات دیکھے تھے ان میں سے کوئی چیز اللہ تعالیٰ کے علم سے باہر نہیں ہے کیونکہ دنیا کے پیدا کرنے سے پچاس ہزار برس پہلے اپنے علم غیب کے نتیجہ کے طور پر یہ سب باتیں اور تمام دنیا کی باتیں اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں لکھ لی ہیں۔ 1 ؎ مثلا تفسیر ہذاص 20 ج 3۔
Top