Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Kahf : 90
حَتّٰۤى اِذَا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَطْلُعُ عَلٰى قَوْمٍ لَّمْ نَجْعَلْ لَّهُمْ مِّنْ دُوْنِهَا سِتْرًاۙ
حَتّٰٓي : یہاں تک کہ اِذَا بَلَغَ : جب وہ پہنچا مَطْلِعَ : طلوع ہونے کا مقام الشَّمْسِ : سورج وَجَدَهَا : اس نے اس کو پایا تَطْلُعُ : طلوع کر رہا ہے عَلٰي قَوْمٍ : ایک قوم پر لَّمْ نَجْعَلْ : ہم نے نہیں بنایا لَّهُمْ : ان کے لیے مِّنْ دُوْنِهَا : اس کے آگے سِتْرًا : کوئی پردہ
یہاں تک کہ سورج کے طلوع ہونے کے مقام پر پہنچا تو دیکھا کہ وہ ایسے لوگوں پر طلوع کرتا ہے جن کے لئے سورج کے اس طرف کوئی اوٹ نہیں بنائی تھی
90۔ 93:۔ مغرب کی طرف اور مشرق کی طرف سے فارغ ہو کر ذوالقرنین نے شمال کی طرف کا جو سفر کیا ان آیتوں میں اس کا ذکر ہے کہ اس سفر میں وہ دو پہاڑوں کی گھاٹی میں پہنچا ان پہاڑوں کی پرلی طرف ایک جنگلی قوم رہتی تھی جس کے لوگ نہ دوسری کسی قوم کی بات سمجھ سکتے تھے نہ ان کی بات کوئی دوسری قوم سمجھ سکتی تھی مگر ذوالقرنین کو اللہ تعالیٰ نے ان کی بات کی سمجھ دی ان لوگوں نے ذوالقرنین سے یہ کہا کہ ان پہاڑوں کے پرلی طرف یاجوج ماجوج کی قوم رہتی ہے اس قوم کے لوگ پہاڑوں کی گھاٹی میں سے ورلی طرف آن کر ہماری کھیتی اور جانوروں کو بہت نقصان پہنچاتے ہیں ہم لوگ چندہ کرکے روپیہ دیتے ہیں اس روپے کے خرچ سے ہمارے اور یاجوج ماجوج کے مابین ایک دیوار بنائی جاکر اس گھاٹی کو بند کردیا جائے تو پھر یاجوج ماجوج ہم کو کچھ تکلیف نہ دے سکیں گے تفسیر عبدالرزاق میں قتادہ کا قول ہے کہ یاجوج ماجوج نوح (علیہ السلام) کے بیٹے یافت کی اولاد میں سے ہیں۔ قتادہ کے اس قول سے وہ مشہور قصہ بےاصل قرار پاتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ایک دفعہ سوتے میں نہانے کی حاجت ہو کر آدم (علیہ السلام) کا نطفہ زمین پر گر پڑا تھا زمین کی اس مٹی سے یاجوج ماجوج کی پیدائش ہوئی ہے نسائی میں عمرو بن اوس کی اپنے باپ کے حوالہ سے صحیح ابن حبان میں عبداللہ بن مسعود سے اور تفسیر عبد بن حمید میں عبداللہ بن سلام ؓ سے معتبر روایتیں ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ یاجوج ماجوج میں کا ہر شخص جب مرتا ہے کہ اس کی اولاد کی گنتی ایک ہزار پہنچ جاتی ہے 1 ؎۔ صحیح بخاری ومسلم میں ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ دوزخیوں کی ہزار آدمویں کی جماعت کا حاصل کلام یہ ہے کہ جب اس جنگلی قوم کے لوگوں نے دیوار بنانے کے خرچ کے لیے چندہ کا ذکر کیا تو ذوالقرنین نے ان کو جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ نے جو مجھ کو مقدور دیا ہے وہ بغیر چندہ کے دیوار کے بنانے کے لیے کافی ہے تم لوگ فقط اس لوہے کو خوب تپا کر ان تختوں کی درزوں میں پگھلا ہوا تانبا ڈال دو ۔ ناقابل اعتراض سند سے طبرانی میں ابی بکرہ ؓ سے روایت ہے جس میں یہ ہے کہ ایک شخص نے اللہ کے رسول ﷺ کے روبرو بیان کیا کہ میں نے سد سکندری کو دیکھا ہے یہ حدیث مسند بزار میں بھی ہے 2 ؎۔ اس حدیث سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے کہ اس دیوار میں لوہے کے تختوں کی درزوں کو پگھلے ہوئے تانبے سے بھرا گیا ہے اس لیے اس کی صورت سیاہ سرخ دھاریوں کے چار خانہ کی ہوگئی ہے۔ قتادہ کا قول بھی ابی بکرہ ؓ کی اس روایت کے موافق ہے خلفائے عباسیہ میں سے خلیفہ واثق باللہ نے کچھ لوگ اس دیوار کے دیکھنے کے لیے بھیجے تھے دو برس کے سفر کے بعد ان لوگوں نے واپس آن کر یہی بیان کیا کہ یہ دیوار لوہے اور تانبے سے بنائی گئی ہے 3 ؎۔ شاہ صاحب نے اپنے فائدہ میں یہ جو لکھا ہے کہ حضرت ﷺ کے وقت میں روپیہ برابر سوراخ دیوار میں پڑگیا تھا یہ حدیث صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ ؓ کی روایت سے ہے 4 ؎۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) جب دجال کو قتل کر چکیں گے اس وقت یہ دیوار گر پڑے گی جس کے سبب سے یاجوج ماجوج گھاٹی کی درلی کی طرح آسمان کی طرف تیر چلادیں گے جو ان کو زیادہ گمراہ کرنے کے لیے خون میں بھرے ہوئے پلٹیں گے اس وقت عیسیٰ ( علیہ السلام) (علیہ السلام) اللہ کے حکم سے اپنے ساتھ کے مسلمانوں کے لیے کو طور پر چڑھ جائیں گے اور جب وہاں کو کھانے پینے کی بہت تکلیف ہوگی تو عیسیٰ (علیہ السلام) یاجوج ماجوج کے حق میں بدعا کریں گے جس کے اثر سے ان کی ناکوں میں ایک طرح کیڑا پیدا ہوجائے گا۔ اور اسی مرض سے سب ہلاک ہوجائیں گے۔ مسند ابی یعلی مستدرک حکم وغیرہ میں ابوہریرہ ؓ اور حذیفہ ؓ سے جو روایتیں ہیں 5 ؎ ان میں یہ ذکر تفصیل سے ہے حاکم نے ان روایتوں کو صحیح قرار دیا ہے 6 ؎۔ شاہ صاحب نے اپنے فائدہ میں ان ہی روایتوں کا خلاصہ بیان کیا ہے یہ روایت نواس بن سمعان ؓ سے صحیح مسلم میں بھی مختصر طور پر آئی ہے 6 ؎۔ یاجوج ماجوج کے نکلنے کی زیادہ تفصیل سورة انبیاء میں آئے گی۔ 1 ؎ تفسیر ابن کثیرص 102 ج 3 بحوالہ سنن نسائی 2 ؎ فتح الباری ص 230 ج 3 3 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 104 ج 3 4 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 5 10 ج 3 5 ؎ صتح الباری ص 576 ج 6 کتاب الفتن 6 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 195۔ 196 ج 3۔
Top