بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ahsan-ut-Tafaseer - Maryam : 1
كٓهٰیٰعٓصٓ۫ۚ
كٓهٰيٰعٓصٓ : کاف۔ ہا۔ یا۔ عین۔ صاد
کھیعص
1۔ 4۔ اس سورت میں مریم (علیہا السلام) کا قصہ ہے اس واسطے اس سورة کا نام مریم ہے حروف مقطعات کی تفسیر کا ذکر سورة بقرہ میں گزر چکا ہے سورة آل عمران کی آیتوں کے مضمون کے موافق حضرت مریم کی ماں نے یہ نذر مانی تھی کہ اگر ان کے ہاں کوئی لڑکا پیدا ہوگا تو اس کو دنیا کے کاموں سے باز رکھ کر بیت المقدس کا خادم بنا دیا جائے گا۔ اتفاق سے لڑکی پیدا ہوئی تو لڑکی کو بیت المقدس کی خادمہ بنانے کا دستور نہ تھا اس واسطے حضرت مریم کی ان کو نذر کے پورا نہ ہونے کا بڑا رنج ہوا اللہ تعالیٰ نے ان کا رنج رفع کرنے کے لیے اپنی رحمت سے حضرت مریم کی خادمی جائز فرمائی اور حضرت مریم کی پرورش ان کے خالو زکریا (علیہ السلام) کے ذمہ ٹھہری جب حضرت مریم سیانی ہوگئیں تو زکریا (علیہ السلام) نے حضرت مریم کے لیے ایک عبادت خانہ بنوا دیا اس عبادت خانہ میں زکریا (علیہ السلام) جب حضرت مریم سے ملنے آتے تو حضرت مریم کے پاس ان کو بےفصل کا میوہ رکھا ہوا نظر آیا کرتا تھا جب حضرت زکریا نے ایک دن پوچھا مریم یہ میوہ کہاں سے آیا تو حضرت مریم ( علیہ السلام) نے جواب دیا کہ یہ میوہ اللہ تعالیٰ نے دیا ہے حاصل کلام یہ کہ جب زکریا (علیہ السلام) نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے بےفصل کا میوہ حضرت مریم کو عنایت کیا تو زکریا علیہ السلا کے دل میں یہ خیال گزرا کہ وہ صاحب قدرت میرے بڑھاپے اور میری بی بی کے بانجھ پنے میں مجھے اولاد عطا فرمادے تو اس کی قدرت سے کچھ بعید نہیں ہے اسی خیال سے زکریا (علیہ السلام) نے یہ دعا کی جس کا ذکر ان آیتوں میں ہے حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ اے رسول اللہ کے اس وقت کی اللہ کی رحمت کا حال سنو جب کہ ذکریا (علیہ السلام) نے اس خیال سے کہ بڑھاپے میں بیٹے کا مانگنا ایک ایسی خلاف عادت بات ہے کہ جس کو سن کر لوگ تعجب کریں گے اس لیے تنہائی میں زکریا (علیہ السلام) نے اپنی دعا کو یوں شروع کیا کہ یا اللہ بڑھاپے کے سبب سے اگرچہ میرے بدن کے سب جوڑ کمزور ہوگئے اور سارا سر سفید ہوگیا لیکن اس سے پہلے میری کوئی دعا رائیگاں نہیں گئی اس لیے تیری رحمت کے بھروسہ پر ایک دعا کر کے اس کی قبولیت کا امیدوار ہوں۔ صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ ؓ کی روایت سے حدیث ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہر شخص جیسا گمان رکھتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں بھی اس شخص کے ساتھ ایسا ہی برتاؤ کرتا ہوں 1 ؎۔ اس حدیث کو آیتوں کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ زکریا (علیہ السلام) نے قبولیت کے گمان سے بڑھاپے میں اولاد کی دعا کی اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے گمان کو پورا کیا اللہ تعالیٰ کی رحمت کے ساتھ زکریا (علیہ السلام) کو جو نیک گمان تھا اس کو انہوں نے اس طرح ظاہر کیا کہ یا اللہ اس دعا سے پہلے میری کوئی دعا رائیگاں نہیں گئی ہے اس لیے میرا حسن ظن یہی ہے کہ میری یہ دعا بھی بلا اثر نہ جائے گی ” وَاشْتَعَلَ “ کے معنے آگ کے شعلہ کے ہیں مطلب ہے کہ جس طرح کہ لکڑیوں میں آگ کا شعلہ پھیل جاتا ہے اسی طرح سارے سر کے بالوں میں سپیدی پھیل گئی۔ 1 ؎ صحیح مسلم ص 3141 ج 2 کتاب الذکر والدعا۔
Top