Ahsan-ut-Tafaseer - Maryam : 15
وَ سَلٰمٌ عَلَیْهِ یَوْمَ وُلِدَ وَ یَوْمَ یَمُوْتُ وَ یَوْمَ یُبْعَثُ حَیًّا۠   ۧ
وَسَلٰمٌ : اور سلام عَلَيْهِ : اس پر يَوْمَ : جس دن وُلِدَ : وہ پیدا ہوا وَيَوْمَ : اور جس دن يَمُوْتُ : وہ فوت ہوگا وَيَوْمَ : اور جس دن يُبْعَثُ : اٹھایا جائے گا حَيًّا : زندہ ہو کر
اور جس دن وہ پیدا ہوئے اور جس دن وفات پائیں گے اور جس دن زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے ان پر سلامتی اور رحمت (ہے)
15۔ 21:۔ اوپر بنی اسرائیل کے اس دستور کا ذکر گزر چکا ہے وہ اپنے لڑکوں کو بیت المقدس کا خادم بنایا کرتے تھے حضرت مریم ( علیہ السلام) کی ماں حنہ نے اس دستور کے موافق نذر مانی کہ ان کے پیٹ میں جو بچہ ہے اس کے پیدا ہونے کے بعد اس کو وہ بیت المقدس کا خادم بنا دیویں گی جب حضرت مریم پیدا ہوئیں تو لڑکی کے پیدا ہونے سے ان کو بڑا رنج ہوا کس لیے کہ لڑکیوں کو بیت المقدس کا خادم بنانے کا حکم نہیں تھا مگر یہ قصہ سورة آل عمران میں گزر چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر باوجود لڑکی ہونے کے ان کا خادم ہونا قبول فرما لیا حضرت مریم کے باپ عمران حضرت مریم کے پیدا ہونے سے پہلے وفات پاگئے تھے اس لیے اپنے خالو حضرت زکریا ( علیہ السلام) کے پاس حضرت مریم پرورش پاکر بیت المقدس کی خدمت کیا کرتی تھیں اس واسطے ان کا نام مریم ہے سریانی زبان میں مریم کے معنے خادم کے ہیں چھوٹی سی عمر میں حضرت مریم کی اس کرامت کا ذکر سورة آل عمران میں ہے کہ اکثر بےفصل کے میوے حضرت زکریا ( علیہ السلام) ان کے پاس دیکھ کر پوچھا کرتے تھے کہ مریم یہ میوے کہاں سے آئے تو جواب دیا کرتی تھیں کہ یہ میوے اللہ نے دیئے ہیں حضرت مریم کے نبی ہونے میں علماء کا اختلاف ہے اکثر علماء کا قول یہی ہے کہ حضرت مریم صدیقہ ہیں نبی نہیں تھیں غرض جب اللہ کو منظور ہوا کہ اپنی قدرت کا ایک نمونہ دنیا میں پیدا کرے تو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے ان کے جسم میں حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کی روح پھونک دی اور ان کو حمل رہ گیا حضرت مریم کے چچا کا بیٹا یوسف نجار بھی بیت المقدس کا خادم تھا جب اس کو حضرت مریم کے حمل کا حال معلوم ہوا تو اس کو بہت حیرت ہوئی کہ حضرت مریم اس کا سوال سمجھ گئیں اور یوسف کو یہی جواب دیا کہ اللہ ہر بات پر قادر ہے علماء نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کی پیدائش دنیا میں ظاہر کردی تاکہ انسان کو اس کی ہر طرح کی قدرت پر پورا ایمان ہو۔ حضرت آدم ( علیہ السلام) کو عورت حضرت مریم کے جسم سے پیدا کیا اور مرد و عورت سے تو اولاد کا پیدا ہونا ایک عادتی بات ہے حاصل یہ ہے کہ دنیا میں جو اسباب اللہ تعالیٰ نے پیدا کیے ہیں ان اسباب قدرت منحصر نہیں ہے جس طرح جو چاہے وہ کرسکتا ہے عادتی سبب یہ ہے کہ بانجھ عورت کے اولاد دی بعضے وقت ظاہری سبب دنیا کے سب موجود ہوتے ہیں لیکن اس کا حکم نہیں ہوتا تو کوئی سبب کام نہیں آتا میاں بی بی اکثر جگہ جوان ہوتے ہیں اور اولاد کی تمنا بھی حد سے بڑھ کر ہوتی ہے مگر بچہ نہیں ہوتا موسم برسات کا ہوتا ہے اور بادل بھی گھر کر آتا ہے مگر ایک بوند نہیں پڑتی اس طرح اور اسباب کا حال ہے غرض جس طرح بغیر سبب کے ہر کام پر وہ قادر ہے اسی طرح اسباب میں تاثیر کا دینا بھی اس کا کام ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ حضرت مریم کے خالو زکریا (علیہ السلام) نے حضرت مریم کو پالا تھا اس مناسبت سے اللہ تعالیٰ نے سورة آل عمران میں اور یہاں زکریا (علیہ السلام) کے قصہ کے بعد حضرت مریم کا ذکر فرمایا حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ حضرت مریم نہانے کا ارادہ کرکے اپنے عبادت خانہ سے مشرق کی طرف کے ایک مکان میں گئیں اور لوگوں سے آڑ کرلینے کے لیے وہاں انہوں نے ایک پردہ ڈالا تو اللہ کے حکم سے جبرئیل (علیہ السلام) وہاں ایک آدمی کی صورت بن کر آگئے حضرت مریم نے خالی مکان اور پردہ کی آڑ میں جب غیر مرد کو دیکھا تو یہ کہا کہ اے شخص اگر تو پرہیزگار ہے تو میں تیرے بد ارادہ سے اللہ کی پناہ میں آنا چاہتی ہوں۔ حضرت مریم کی اس بات سے ان کی کمال درجہ کی پارسائی ثابت ہوتی ہے اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے سورة التحریم میں ان کی پارسائی کی تعریف فرمائی ہے صحیح بخاری اور ابن ماجہ میں حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے ایک قصہ ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ایک عورت جو نیہ سے اللہ کے رسول ﷺ نے نکاح کیا اور جب آپ ﷺ نے اس عورت کے پاس جانے کا قصد کیا تو اس عورت نے یہ کہا کہ میں تم سے اللہ کی پناہ میں آنا چاہتی ہوں آپ ﷺ نے فرمایا تو نے بہت بڑی پناہ چاہی یہ فرما کر آپ نے اس عورت کو طلاق دے دی 1 ؎۔ اس سے معلوم ہوا کہ لڑائی جھگڑے کے وقت کسی عورت کو اپنے خاوند سے یہ نہیں کہنا چاہیے کہ میں تجھ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں کیونکہ یہ ایسا کلمہ ہے کہ جو نیہ کے منہ سے جب یہ کلمہ نکلا تو پھر اللہ کے رسول ﷺ نے اس کو اپنے نکاح میں رکھنا پسند نہیں کیا اور اللہ کی پناہ کی عظمت اس میں خیال کیا کہ اس عورت کو طلاق دے دی 2 ؎۔ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نے جب دیکھا کہ اکیلے مکان میں غیر مرد کو دیکھ کر مریم (علیہا السلام) کی تسکین کی اور یہ کہا کہ میں تو اللہ کا قاصد ہوں تم کو لڑکے کے پیدا ہونے کا پیغام پہنچانے آیا ہوں جبرئیل (علیہ السلام) کا یہ پیغام سن کر مریم (علیہا السلام) کو بڑا تعجب ہوا اور انہوں نے تعجب سے کہا کہ نہ کسی مرد سے میرا نکاح ہوا اور نہ میں بدکار تھی پھر بغیر مرد سے واقف ہونے کے میرے ہاں لڑکا کیوں کر پیدا ہوگا۔ مریم (علیہا السلام) کی یہ بات سن کر جبیرئیل (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ کسی مرد سے واقف نہ ہونے کی تمہاری بات تو سچ ہے مگر اللہ کا حکم یہی ہے جس کا میں نے پغام پہنچایا اور جس صاحب قدرت نے بنی آدم کے باپ آدم (علیہ السلام) کو بغیر ماں باپ کے پیدا ہوگا کہ لوگوں نظروں میں اللہ کی قدرت کی ایک نشانی ہو اور یہود نے توریت کے احکام میں طرح طرح کے اختلافات جو ڈال رکھے ہیں ان اختلافوں کے رفع ہوجانے کے لیے عیسیٰ علیہ السلا کا پیدا ہونا بہت سے لوگوں کے حق میں گویا اللہ کی ایک رحمت ہے اور یہ باتیں جو اوپر بیان کی گئیں یہ ایسی باتیں ہیں کہ اللہ کے علم غیب کے موافق یہ باتیں ٹھہر چکی اور لوح محفوظ میں لکھی جاچکی ہیں اس واسطے ان میں سے کوئی بات اب ٹل نہیں سکتی۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن عمرو بن العاص کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے 3 ؎۔ کہ دنیا میں جو کچھ ہونے والا تھا اپنے علم غیب کے نتیجہ کے طور پر دنیا کے پیدا کرنے سے پچاس ہزار برس پہلے وہ سب اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے۔ یہ حدیث ان آیتوں کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جبرئیل (علیہ السلام) کا آدمی کی صورت میں مریم (علیہا السلام) کے پاس آنا اور ان کو عیسیٰ (علیہ السلام) کے بغیر باپ کے پیدا ہونے کا پیغام الٰہی پہنچانا اور پھر اس پیغام کے موافق عیسیٰ (علیہ السلام) کا پیدا ہونا اور بہت سے لوگوں کے حق میں اس پیدائش کا قدرت الہی کا نشانی کا ٹھہرنا ایسی باتیں تھیں جو دنیا کے پیدا ہونے سے پچاس ہزار برس پہلے لوح محفوظ میں لکھی جا چکی تھیں اس واسطے ان باتوں میں سے کوئی بات ٹل نہیں سکتی اس تفسیر سے وکان امرا مقضیا کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے۔ (1 ؎ سنن ابن ماجہ ص 148 باب مایقع بہ الطلاق ) (2 ؎ صحیح بخاری ص 790 ج 2 باب من طلق وھل یواجہ الرجل امرئتہ بالطلاق ) (3 ؎ مثلاج 3 ص 034 )
Top