Ahsan-ut-Tafaseer - Maryam : 22
فَحَمَلَتْهُ فَانْتَبَذَتْ بِهٖ مَكَانًا قَصِیًّا
فَحَمَلَتْهُ : پھر اسے حمل رہ گیا فَانْتَبَذَتْ : پس وہ چلی گئی بِهٖ : اسے لیکر مَكَانًا : ایک جگہ قَصِيًّا : دور
تو وہ اس (بچے) کے ساتھ حاملہ ہوگئیں اور اسے لیکر ایک دور جگہ چلی گئیں
22۔ 26:۔ صحیح بخاری میں عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : مرد اور عورت کا نطفہ چالیس روز تک عورت کے رحم میں رہ کر جما ہوا خون ہوجاتا ہے پھر اس خون کا گوشت بن جاتا ہے اور اس گوشت سے ہڈیاں بن کر ان ہڈیوں پر گوشت کا غلاف چڑھ جاتا ہے اس طرح ساڑھے چار مہینے میں یہ سب کچھ ہو کر بچہ کا پتلا تیار ہوجاتا ہے اور پھر اس پتلہ میں روح پھونک دی جاتی ہے 1 ؎۔ یہ تو سب عورتوں کے حمل کی حالت ہوئی حضرت مریم کے حمل میں یہ بات نہیں ہوئی کہ بجائے مرد اور عورت کے نطفہ کے فقط عورت کے نطفہ سے کلمہ کن کے موافق پتلہ تیار ہوا اور پتلہ سے اس روح کا تعلق ہوگیا جو روح جبرئیل (علیہ السلام) نے حضرت مریم کے جسم میں پھونک دی تھی۔ چناچہ سورة نساء کی آیت (انما المسیح عیسیٰ بن مریم رسول اللہ وکلمتہ القاھا الیٰ مریم) سے اس بات کو جتلایا گیا ہے غرض کہ جس صاحب قدرت نے مرد اور عورت کے نطفہ سے خلاف عقل پتلہ کی تیاری کا کام لیا یا بغیر مرد اور عورت کے نطفہ کے آدم (علیہ السلام) اور حوا کو پیدا کیا فقط عورت کے رحم کی رطوبت سے ایک بچہ کا پتلا بنا دینا اس کی قدرت سے کیا بعید ہے ان آیتوں میں حضرت مریم کے حمل کا ذکر تھا یہ ذکر نہیں تھا کہ وہ حمل بغیر مرد کے نطفہ کے کیونکر رہ گیا سورة نساء کی اوپر کی آیت کو ان آیتوں کے ساتھ ملایا جائے تو یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے کہ خلاف عادت اس حمل کا ظہور کیوں کر ہوا بغیر مرد کے نطفہ کے حمل کا رہنا خلاف عادت تھا جس سے مریم (علیہا السلام) کو یہ اندیشہ ہوا کہ اس خلاف عادت حمل کو دیکھ کر قوم کے لوگ طرح طرح کی باتیں بنا دیں گے اس اندیشہ سے مریم (علیہا السلام) اپنے عبادت خانہ سے دور ایک مکان میں چلی گئیں اور بچہ کی پیدائش کے وقت تک وہیں رہیں اور بچہ کی پیدائش کا درد جب شروع ہوا تو وہاں سے بھی الگ ایک کھجور کے درخت کے نیچے جا بیٹھیں پھر درد زہ کی تکلیف اور خلاف عادت بچہ کی پیدائش کی شرم سے اپنے آپ کو یوں کو سنے لگیں کہ کسی طرح اس حالت سے پہلے ہی مرجاتی اور اب تک لوگوں کے دل سے بھولی بسری ہوجاتی تو خوب ہوتا۔ سورة الاعراف میں گزر چکا ہے کہ بنی اسرائیل میں کے ستر آدمی جب بجلی گر کر مرگئے تو موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی موت کی تمنا ظاہر کی تھی اسی واسطے مریم (علیہا السلام) نے اس طرح کی تمنا کو جائز رکھا لیکن شریعت محمدی میں تکلیف کے وقت موت کی تمنا جائز نہیں ہے۔ چناچہ صحیح مسلم کی انس بن مالک کی روایت میں اس طرح کی تمنا کی مناہی آئی ہے 2 ؎۔ معلوم ہوتا ہے کہ شریعت موسوی میں اس طرح کی تمنا جائز تھی۔ آگے یہ جو ذکر ہے کہ اس گھبراہٹ کے وقت مریم (علیہا السلام) کو یہ آواز آئی کہ گھبراؤ نہیں ‘ تمہارے پیروں کے نیچے اللہ تعالیٰ نے پانی کی نہر جاری کردی ہے اور اس کھجور کے درخت کو ہلاؤ گی تو اس میں سے پکی کھجوریں جھڑیں گی وہ کھجوریں کھاؤ نہر کا پانی پیو اپنے لڑکے کو دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی کرو اور قوم میں کا کوئی شخص نظر آوے اور تم سے بات چیت کرنی چاہے تو اس سے کہہ دو کہ میرا آج خاموشی کا روزہ ہے اس لیے میں بات چیت نہیں کرسکتی۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ مریم (علیہا السلام) کے پیروں کے نیچے سے پیدا ہوتے ہی یہ آواز جبرئیل (علیہ السلام) کی تھی اور مجاہد کا قول ہے کہ یہ آواز عیسیٰ (علیہ السلام) نے دی تھی حافظ ابو جعفر ابن جریر نے مجاہد کے قول کو ترجیح دی ہے 3 ؎۔ اور اس ترجیح کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ اس آواز کے دینے سے مریم (علیہا السلام) کو عیسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف عادت بولنے کا تجربہ ہوچکا تھا اسی واسطے انہوں نے آگے کی آیت میں قوم کے لوگوں کو اشارہ سے جتلایا کہ تم اس لڑکے سے بات چیت کرو لیکن اکثر سلف کا قول وہی ہے جس کی روایت حضرت عبداللہ بن عباس سے ہے اس واسطے شاہ صاحب نے اپنے فائدہ میں یہی قول لیا ہے شریعت موسوی میں خاموشی کا روزہ ہوا کرتا تھا شریعت محمدی میں اس طرح کا روزہ جائز نہیں ہے چناچہ عبداللہ بن مسعود ؓ نے ایک شخص کو اس طرح کا روزہ رکھتے ہوئے دیکھ کر منع کیا 4 ؎۔ اس طرح کی ممانعت عبداللہ بن مسعود نے ضرور اللہ کے رسول ﷺ سے سن کر کی ہوگی کیونکہ اپنی طرف سے صحابہ کوئی ایسا حکم نہیں دیتے تھے۔ 1 ؎ صحیح بخاری ص 469 ج 1 باب خلق آدم وزرتیہ۔ 2 ؎ صحیح 342 ج 2 باب کر اہتہ تمنی الموت۔ 3 ؎ تمام اقوال کے لیے دیکھئے تفسیر ابن کثیرص 115 ج 3۔
Top