Tafseer-e-Majidi - Al-Qalam : 11
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِبْرٰهِیْمَ١ؕ۬ اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا   ۧ
وَاذْكُرْ : اور یاد کرو فِي الْكِتٰبِ : کتاب میں اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم اِنَّهٗ كَانَ : بیشک وہ تھے صِدِّيْقًا : سچے نَّبِيًّا : نبی
اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو بیشک وہ نہایت سچے پیغمبر تھے
41۔ 50:۔ تفسیر سدی اور سیرۃ ابن اسحاق میں حضرت ابرہیم (علیہ السلام) کی پیدائش کا قصہ جو لکھا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کی پیدائش سے پہلے نمرود نے خواب میں دیکھا تھا کہ ایک بڑا روشن ستارہ آسمان پر نکلا ہے اس وقت کے نجومیوں سے اس نے اپنا یہ خواب بیان کیا انہوں نے جواب دیا کہ اس سال ایک لڑکا ایسا پیدا ہوگا کہ اسکے سبب سے تیری سلطنت غارت ہوجائے گی اس خواب کی تعبیر کے خوف سے بستی کے سب مردوں کو اپنے ساتھ لے کر نمرود بستی کے باہر چلا گیا اور سب عورتوں کو بستی کے اند چھوڑ دیا تاکہ اس سال مرد و عورت میں مباشرت اور کوئی اولاد پیدا نہ ہو، مگر جب آزر بستی میں آئے تو ان سے نہ رہا گیا انہوں نے اپنی بی بی سے مباشرت کی اور حضرت ابراہیم کا حمل رہا نجومیوں نے پھر نمرود کو خبر دی کہ اس لڑکے کا حمل قرار پاچکا ہے لیکن حضرت ابرہیم ( علیہ السلام) کی ماں کو دیکھنے میں حمل نہیں معلوم ہوتا تھا آخر حضرت ابرہیم پیدا ہوئے اور نمرود کے خواب سے سات برس کی عمر تک ان کی ماں نے ان کو ایک تہ خانہ میں پالا پہلے تو حضرت ابرہیم کی ماں نے اپنے خاوند آزر سے بھی حضرت ابراہم کا حال چھپایا اور یوں کہہ دیا کہ ایک مرا ہوا بچہ پیدا ہوا تھا کیوں کہ جب نجومویں نے نمرود کو اس بچہ کے حمل قرار پاجانے کی خبر دی تھی تو نمرود نے حکم دے دیا تھا کہ اس سال جو بچہ پیدا ہو وہ مار ڈالا جائے اس خوف سے حضرت ابرہیم کی ماں نے اپنے خاوند سے بھی حضرت ابراہیم کے حال کو چھپایا کہ نمرود کی خوشامد سے کہیں آزر اس بچہ کا حال ظاہر کر کے اس بچہ کو قتل نہ کرا دے اس تہ خانہ کے رہنے کے زمانہ میں ان کی ماں نے ایک رات ان کو تہ خانہ سے باہر نکالا تھا اور جب ہی انہوں نے چاند ستاروں کو غروب اور طلوع کے وقت دیکھ کر ھذاربی کہا تھا جس کا ذکر سورة انعام میں ہے غرض جب نمرود کے خواب کو سات برس گزر گئے اور بچوں کو مار ڈالنے کا حکم بھی نمرود نے موقوف کردیا اور حضرت ابرہیم ( علیہ السلام) خوب باتیں کرنے لگے تو ایک روز حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کی ماں نے آزر سے محبت دلانے کیلئے حضرت ابراہیم کی باتوں کا اور حضرت ابرہیم کی پیدائش کا حال کہا آزر نے حضرت ابراہیم کو تہ خانہ میں جا کر دیکھا اور جتلایا کہ میں تمہارا باپ ہوں حضرت ابرہیم نے کہا اے میرے باپ تمہارا پیدا کرنے والا کون ہے آزر نے کہا نمرود حضرت ابرہیم نے کہا نمرود کو کس نے پیدا کیا۔ حضرت ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے کی پھر اسی طرح سولہ برس کی عمر تک حضرت ابراہیم اپنے باپ اور اپنی قوم کے لوگوں سے بحث کرتے رہے اور طرح طرح سے بت پرستی کی برائی ان کو سمجھاتے رہے ان ہی بحثوں میں کی ایک بحث کا ان آیتوں میں ذکر ہے جب ان بحثوں سے وہ لوگ نہ مانے تو سولہ برس کی عمر میں حضرت ابراہیم نے ان کے بت توڑ ڈالے اور اسی الزام میں نمرود نے پہلے تو حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کو چند روز قید میں رکھا پھر قید سے ایک روز ان کو اپنے روبرو بلایا اور بحث ہوئی جس کا ذکر سورة بقرہ میں گزرا جس میں حضرت ابرہیم ( علیہ السلام) نے نمرود سے کہا کہ میرا خدا تو ہر روز مشرق سے سورج نکالتا ہے تجھ میں کچھ قدرت ہے تو سورج کو مغرب سے نکال اس بحث میں لاجواب ہو کر پھر نمردو نے حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کو آگ میں ڈالا یہ قصہ سورة انبیاء میں آئے گا اولو العزم رسولوں میں پہلے رسول حضرت نوح ہیں دوسرے حضرت ابرہیم ( علیہ السلام) بغیر الوالعزم دو رسول حضرت ہود ( علیہ السلام) اور حضرت صالح ( علیہ السلام) حضرت نوح ( علیہ السلام) اور حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے بیچ کے زمانہ میں گزرے ہیں۔ جامع الاصول میں ہے کہ حضرت نوح ( علیہ السلام) اور حضرت ابرہیم ( علیہ السلام) کے بیچ کے زمانہ میں مدت بارہ سو چالیس برس کی ہے اللہ کے حکم کی فرمانبرداری حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) میں بہت تھی حکم آتے ہی اسی برس کی عمر میں اپنے ہاتھ سے اپنا ختنہ کیا جس کا ذکر صحیح بخاری میں ابوہریرہ ؓ کی روایت سے ہے 1 ؎۔ اپنے بیٹے حضرت اسمعیل ( علیہ السلام) کی ذبح کرنے کو جھٹ مستعد ہوگئے جس کا ذکر والصافات میں آئے گا مہمان نوازی حضرت ابراہیم کی مشہور ہے مکہ کے مشرک لوگ اپنے آپ کو ملت ابراہیمی پر کہتے تھے اس واسطے اللہ تعالیٰ نے اوپر کی آیتوں میں ان کو بت پرستی کے وبال سے ڈرا کر ان آیتوں میں ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ بیان فرمایا تاکہ ان لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ ابراہیم (علیہ السلام) بت پرستی سے کس قدر بیزار تھے پھر یہ لوگ بت پرستی میں گرفتار ہو کر اپنے آپ کو ملت ابراہیمی پر کیوں کر بتلا سکتے ہیں غرض باپ کی بت پرستی سے بیزار ہو کر ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ سے کہا کہ جن بتوں کو تم پوجتے ہو نہ ان کے کان ہیں جو تمہارا کوئی مقصد وہ سنیں نہ ان کی آنکھیں ہیں جو تمہاری پوجا کی حالت کو وہ دیکھیں پھر کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ بت تمہارا کون سا مقصد پورا کرسکتے ہیں اگر تم میرا کہنا مانو تو میں تم کو عبادت کا سیدھا راستہ بتا سکتا ہوں جن نیک لوگوں کی مورتوں کو تم پوجتے ہو ان نیک لوگوں کو تو تمہاری اس پوجا کی خبر تک بھی نہیں یہ تو شیطان کا کام ہے کہ جیسا وہ خود گمراہ ہے اوروں کو بھی ویسا کرنا اور اپنا گروہ بڑھانا چاہتا ہے اے میرے باپ میں ڈرتا ہوں کہ شیطان کے کہنے پر چلنے اور شیطان کا ساتھی قرار پا جانے سے تم پر اللہ کی طرف سے کوئی آفت نہ آجائے ابرہیم (علیہ السلام) کے باپ آزر نے براہیم (علیہ السلام) کی یہ باتیں سن کر کہا معلوم ہوتا ہے ابرہیم تم ہمارے ٹھاکروں سے پھرے ہوئے ہو اگر تم اپنی اس حالت کو نہ چھوڑو گے تو میں تم کو پتھروں سے کچل ڈالوں گا جاؤ کچھ دنوں تک تم مجھ کو اپنی صورت نہ دکھاؤ باپ کی یہ باتیں سن کر ابراہیم (علیہ السلام) نے باپ کو رخصتی کا سلام کیا اور یہ کہا کہ اے باپ میں تم سے اور تمہارے بتوں سے کنارے ہوجاتا ہوں مگر میں جہاں رہوں گا تمہارے حق میں دعا خیر کرتا رہوں گا اور مجھ کو اللہ کی ذات سے امید ہے کہ میری دعا رائیگاں نہ جائے گی آگے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ کے واسطے اپنے ماں باپ اور قوم کو چھوڑا تو ان کو اولاد اور اولاد کی اولاد والا کیا اور ان سب کو نبی کر کے ان کا ذکر خیر دنیا میں باقی رکھا۔ صحیح بخاری وغیرہ میں معراج کی جو روایتیں ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ابرہیم (علیہ السلام) کا رتبہ اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے۔ 1 ؎ صحیح بخاری ص 473 ج 1 کتاب الانبیا۔
Top