Ahsan-ut-Tafaseer - Maryam : 51
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى١٘ اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا
وَاذْكُرْ : اور یاد کرو فِي الْكِتٰبِ : کتاب میں مُوْسٰٓى : موسیٰ اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : تھا مُخْلَصًا : برگزیدہ وَّكَانَ : اور تھا رَسُوْلًا : رسول نَّبِيًّا : نبی
اور کتاب میں موسیٰ کا بھی ذکر کرو بیشک وہ (ہمارے) برگزیدہ اور پیغمبر مرسل تھے
51۔ 53:۔ تفسیر سدی اور تفسیر ابن جریر وغیرہ میں حضرت موسیٰ کی پیدائش کا قصہ جو ذکر کیا گیا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی پیدائش سے پہلے فرعون نے خواب میں دیکھا کہ بیت المقدس کی طرف سے ایک آگ نکلی اور سوا بنی اسرائیل کے محلہ کے تمام مصر کو اس آگ نے جلا دیا فرعون نے اپنا یہ خواب اس وقت کے نجومیوں سے بیان کیا انہوں نے کہا ایک لڑکا بنی اسرائیل میں کا جس کا اصل وطن ملک شام بیت المقدس کی سر زمین ہے پیدا ہونے والا ہے اس کے ہاتھ سے مصر خواب اور برباد ہوگا۔ فرعون نے بنی اسرائیل میں جو لڑکے پیدا ہوتے تھے ان کے مار ڈالنے کا حکم دیا۔ ہزارہا لڑکے بنی اسرائیل کے قتل کیے گئے جب حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) پیدا ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی ماں کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ ان کی ماں نے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو ایک صندوق میں بند کر کے اور ایک رسی سے اس صندوق کو باندھ کر وہ صندوق دریا میں ڈال دیا۔ جب دودھ پلانا ہوتا وہ صندوق کی رسی کھینچ کر صندوق میں سے حضرت موسیٰ کو نکال کر دودھ پلا دیا کرتیں اور پھر وہ صندوق دریا میں ڈال دیا کرتیں ایک روز خدا کی قدرت کہ وہ رسی کھل گئی اور صندوق دریا میں بہہ گیا حضرت موسیٰ کی ماں نے گھبرا کر حضرت موسیٰ کی بہن مریم کو اس صندوق کی خبر کو بھیجا مریم نے آن کر خبر دی کہ دریائے نیل سے ایک نہر فرعون نے جو اپنے رہنے کے مکان تک کاٹ لی تھی اس کے راستہ سے بہہ کر وہ صندوق فرعون کے دروازے پر پہنچ گیا اور اتفاق سے وہ صندوق حضرت آسیہ فرعون کی بی بی کو نظر پڑا اور انہوں نے نکلوایا اور کھولا اور فرعون سے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے پالنے کی اجازت بھی حاصل کرلی اور حضرت موسیٰ کسی انا کا دودھ نہیں پیتے اس واسطے ایسی انا کی تلاش ہو رہی ہے جس کا دودھ حضرت موسیٰ پئیں سورة طہ و سورة شعرا اور قصص میں یہ قصہ پورا آوے گا کہ خدا کی قدرت سے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے اپنی ماں کے ہی دودھ سے اپنے دشمن فرعون کے گھر میں پرورش پائی اور پھر مدین گئے اور وہاں حضرت شعیب ( علیہ السلام) کی بیٹی سے نکاح ہوا اور دس 10 برس مدین رہے جب حضرت موسیٰ گھٹنوں چلنے لگے تو ایک دن آسیہ نے ان کو فرعون کی گود میں دیا حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے فرعون کی داڑھی نوچ لی فرعون کو غصہ آگیا اس نے جلاد کو حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے مار ڈالنے کے لیے بلوایا آسیہ نے کہا کہ ناسمجھ بچہ ہے اس کی بات پر تم کیا غصہ کرتے ہو ناحق لوگ ہنسیں گے میں ایک طرف آگ کا انگارا رکھتی ہوں اور ایک طرف یاقوت رکھتی ہوں اگر اس بچہ نے آگ کا انگارہ اٹھا لیا تو جان لینا ناسمجھ بچہ ہے اور اگر یاقوت اٹھایا تو جاننا سمجھ دار ہے پھر تم کو مار ڈالنے کا احتیار ہے یہ دونوں چیزیں آسیہ نے رکھیں حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کا ہاتھ پکڑ کر آگ میں ڈال دیا اور وہ آگ کا انگارہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے ہاتھ میں دے کر پھر حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کا ہاتھ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے منہ میں دے دیا جس سے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی زبان جل کر توتلی ہوگئی پھر نبی بننے کے بعد جب حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تو وہ توتلا پن گیا جس کا ذکر سورة طہ میں آئے گا ایک سو بیس برس کی عمر میں حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے وفات پائی۔ صحیح مسلم میں ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ملک الموت جب حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی جان قبض کرنے کے لیے آئے تو حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے ملک الموت کی آنکھ میں ایک گھونسا مار کر ملک الموت کی آنکھ پھوڑ ڈالی ملک الموت نے جاکر خدا تعالیٰ سے فریاد کی اللہ تعالیٰ نے ملک الموت کی آنکھ اچھی کردی اور فرمایا پھرجا کر موسیٰ ( علیہ السلام) سے کہو کہ اگر ان کو دنیا کی زیست درکار ہے تو ایک بیل کی پیٹھ پر وہ ہاتھ رکھ دیں بیل کے جتنے بال ان کے ہاتھ کے نیچے دبیں گے ہر ایک بال کو ایک سال قرار دیا جاکر ان کی عمر بڑھا دی جائے گی جب ملک الموت نے اللہ تعالیٰ کا یہ پیغام حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو پہنچایا تو حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے کہا کہ اپنی عمر بڑھانے کے بعد پھر آخر انجام کیا ہوگا اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب ملا آخر موت ہے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے کہا تو ابھی سہی 1 ؎۔ بعضے لوگوں نے اس حدیث کے مطلب پر یہ اعتراض کیا ہے کہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے ملک الموت کو پہچان لیا تھا اور پھر آنکھ پھوڑی تو اللہ کے فرشتے کی توہین کی اور اگر نہیں پہچانا تو ایک اجنبی شخص کو جان کر گھونسا مارا تو حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) سے قصاص لینا چاہیے تھا جواب اس اعتراض کا وہی ہے جو حافظ ابن حجر (رح) نے فتح الباری میں دیا ہے کہ شریعت موسوی ( علیہ السلام) اور شریعت محمدی ﷺ انسانوں پر ناقد اور جاری ہے یہ قصہ ایک اللہ کے رسول اور ایک فرشتہ کے فی مابین کا ہے اس قصہ کا فیصلہ اللہ تعالیٰ نے کردیا اب اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کے بعد کسی انسان کی کیا بساط ہے جو اس فیصلہ پر اعتراض کرسکے حاصل یہ ہے کہ یہ اعتراض حد شریعت سے بڑھا ہوا ہے اس لیے علماء کی توجہ کے قابل نہیں ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ دس 10 برس مدین میں رہنے کے بعد شعیب (علیہ السلام) سے اجازت لے کر جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی ماں اور بھائی ہارون سے ملنے کا قصد کیا اور مدین سے مصر کی طرف روانہ ہوئے تو اس وقت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ ان کی بی بی بھی تھیں جاڑے کا موسم اور رات کا سفر تھا اور موسیٰ (علیہ السلام) رات کے اندھیرے کے سبب سے راستہ بھی بھول گئے تھے اسی حالت میں ان کو دور سے آگ کی روشنی نظر آئی یہ آگ کی روشنی دیکھ کر موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی بی بی سے کہا تم یہیں ٹھہرو میں آگ میں سے ایک انگارہ لے آؤں اور آگ کے پاس کوئی آدمی مل گیا تو اس سے راستہ بھی پوچھ لوں گا علماء کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ کے آگے جو پردے ہیں ان میں سے ایک پردہ آگ کا بھی ہے وہی آگ موسیٰ (علیہ السلام) کو نظر آئی تھی۔ صحیح مسلم میں ابو موسیٰ اشعری ؓ سے جو روایت ہے اس میں بھی اس آگ کے پردہ کا ذکر ہے 2 ؎۔ اس حدیث سے ان علماء کے قول کی تائید ہوتی ہے غرض اس روشنی میں سے موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کی آواز آئی اور اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون اور اس کی قوم کی ہدایت کے لیے نبی ٹھہرا کر موسیٰ (علیہ السلام) سے بہت سی باتیں کیں جن کا ذکر سورة طٰہٰ میں آئے گا۔ اسی وقت عصا اور یدبیضاء کا معجزہ موسیٰ (علیہ السلام) کو عطا ہوا اور موسیٰ (علیہ السلام) کی خواہش پر ہارون (علیہ السلام) کو بھی نبی قرار دیا یہ سب ذکر بھی سورة طٰہٰ میں تفصیل سے آئے گا ان آیتوں میں بھی وہی ذکر مختصر طور پر فرمایا گیا ہے صحیح بخاری وغیرہ میں معراج کے بیان میں جو روایتیں ہیں ان کے موافق خاتم الانبیاء ﷺ اور ہارون (علیہ السلام) کی ملاقات پانچویں آسمان پر ہوئی اور موسیٰ (علیہ السلام) کی چھٹے آسمان 3 ؎ پر ان روایتوں سے یہ بات سمجھ میں آسکتی ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کے مرتبہ میں فرق ہے مشرکین مکہ موسیٰ (علیہ السلام) کو صاحب توریت نبی اور یہود کو اہل کتاب جانتے تھے اسی واسطے انہوں نے یہود کے مشورہ کے موافق روح اصحاب کہف اور ذوالقرنین کا حال اللہ کے رسول ﷺ سے پوچھا تھا لیکن اللہ کے رسول ﷺ کی نبوت پر ان کا یہ اعتراض تھا کہ اللہ کا رسول انسان نہیں ہوسکتا فرشتہ ہونا چاہیے اس اعتراض کو موسیٰ (علیہ السلام) کے ذکر سے یوں غلط ٹھہرایا کہ آخر موسیٰ (علیہ السلام) بھی انسان تھے وہ کیوں کر اللہ کے رسول قرار پائے۔ (1 ؎ صحیح مسلم ص 623 ج 2 باب من فضائل موسیٰ علیہ السلام۔ ) (2 ؎ صحیح مسلم ص 99 ج 1 باب معنی قول اللہ عزوجل ولقدراہ نزلہ اخری الخ ) (3 ؎ مشکوٰۃ باب المعراج۔ )
Top