Ahsan-ut-Tafaseer - Maryam : 54
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ١٘ اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّاۚ
وَاذْكُرْ : اور یاد کرو فِي الْكِتٰبِ : کتاب میں اِسْمٰعِيْلَ : اسمعیل اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : تھے صَادِقَ الْوَعْدِ : وعدہ کا سچا وَكَانَ : اور تھے رَسُوْلًا : رسول نَّبِيًّا : نبی
اور کتاب میں اسمعیل کا بھی ذکر کرو وہ وعدہ کے سچے اور (ہمارے) بھیجے ہوئے نبی تھے
54۔ 55:۔ تفسیر ابن ابی حاتم میں معتبر سند سے ابن شہاب زہری کا قول ہے کہ اسمعیل (علیہ السلام) نے ایک شخص سے کچھ وعدہ کیا تھا پھر وہ شخص وعدہ پر نہیں آیا تو اسماعیل (علیہ السلام) ایک برس تک اس کا انتظار کرتے رہے 1 ؎ ان آیتوں میں اسماعیل (علیہ السلام) کو وعدہ کا سچا جو فرمایا اس کی تفسیر اس قصہ سے اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے یہ محمد بن مسلم ابن شہاب سبا میں آئے گا کہ پانی کا بند ٹوٹ جانے کی آفت سے جب قوم سبا کے یمنی عرب تباہ ہوگئے تو ان میں کے کچھ قبیلے یمن سے اٹھ کر مدینہ منورہ میں آن بسے یہ وہی لوگ ہیں جن کا لقب خاتم الانبیاء ﷺ کے زمانہ میں انصار قرار پایا۔ صحیح بخاری میں سلمۃ بن الاکوع سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے ان لوگوں کو بنی اسماعیل (علیہ السلام) کے ذکر سے اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ کو یوں قائل کیا ہے کہ تمام عرب کے باپ اسماعیل (علیہ السلام) کو تو یہ حال تھا کہ وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کی تاکید کیا کرتے تھے اور ان لوگوں کا یہ حال ہے کہ نماز کے وقت یہ لوگ سیٹیاں اور تالیاں بجاتے اور زکوٰۃ کو جرمانہ جانتے ہیں اور پھر اپنے آپ کو اولاد اسماعیل کہتے ہیں۔ اسماعیل (علیہ السلام) نے اپنے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کے حکم کے موافق اپنی بی بی کو طلاق دے دی جس کا ذکر حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی روایت سے صحیح بخاری میں ہے 2 ؎۔ کعبہ کے بنانے کے وقت پتھر ڈھو ڈھو کر لائے اور ابراہیم (علیہ السلام) کو بری مدد دی یہ ذکر بھی صحیح بخاری کی اسی روایت میں ہے میں آئے گا اسی واسطے ان آیتوں میں فرمایا کہ اسماعیل (علیہ السلام) کی عادتیں اللہ کو پسند تھیں۔ 1 ؎ فتح الباری ص 573 ج 2 باب من امربانجاز الوعد الخ۔ 2 ؎ صحیح بخاری ص 475 ج 1 کتاب الانبیاء۔
Top