Ahsan-ut-Tafaseer - Maryam : 68
فَوَرَبِّكَ لَنَحْشُرَنَّهُمْ وَ الشَّیٰطِیْنَ ثُمَّ لَنُحْضِرَنَّهُمْ حَوْلَ جَهَنَّمَ جِثِیًّاۚ
فَوَرَبِّكَ : سو تمہارے رب کی قسم لَنَحْشُرَنَّهُمْ : ہم انہیں ضرور جمع کریں گے وَالشَّيٰطِيْنَ : اور شیطان (جمع) ثُمَّ : پھر لَنُحْضِرَنَّهُمْ : ہم انہیں ضرور حاضر کرلیں گے حَوْلَ : ارد گرد جَهَنَّمَ : جہنم جِثِيًّا : گھٹنوں کے بل گرے ہوئے
تمہارے پروردگار کی قسم ہم ان کو جمع کریں گے اور شیطانوں کو بھی پھر ان سب کو جہنم کے گرد حاضر کریں گے (اور وہ) گھنٹوں پر گرے ہوئے (ہوں گے)
68۔ 70:۔ اوپر منکرین حشر کو عقلی طور پریوں قائل کیا گیا تھا کہ ان کے انکار سے اللہ تعالیٰ کا انتظام بدل نہیں سکتا جس نے اپنی ذات پاک کی قسم کھا کر فرمایا کہ ضرور سزا وجزا کے لیے ایک دن سب کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا تاکہ دنیا کا پیدا کرنا ٹھکانے لگے اور جن جن شیاطینوں کے بہکانے سے یہ منکر حشر دوبارہ زندہ ہونے کا انکار کرتے ہیں ان کے ساتھ ان کو بھی زندہ کیا جائے ان میں سے بڑے بڑے سرکشوں کو چھانٹا جا کر دوزخ میں پہلے جھونکا جائے گا اور جو سرکش لوگ دوزخ کے پہلے جھونکے کے قابل ہیں ان کا حال اللہ تعالیٰ کو خوب معلوم ہے صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ جو شخص خود بھی گمراہی کے کام کرے گا اور دوسروں کو بھی بہکائے گا اس کو دوہرا عذاب بھگتنا پڑے گا 1 ؎۔ جو لوگ زیادہ عذاب کے مستحق ٹھہر کر چھانٹے جانے اور دوزخ کے پہلے جھونکے کے قابل آیتوں میں ذکر کیے گئے ہیں۔ تفسیری طور پر ان کی مثال اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے۔ 1 ؎ صحیح مسلم ص 341 ج 2 من سن سنتہ حسنتہ الخ۔
Top