Ahsan-ut-Tafaseer - Maryam : 7
یٰزَكَرِیَّاۤ اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلٰمِ اِ۟سْمُهٗ یَحْیٰى١ۙ لَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ قَبْلُ سَمِیًّا
يٰزَكَرِيَّآ : اے زکریا اِنَّا : بیشک ہم نُبَشِّرُكَ : تجھے بشارت دیتے ہیں بِغُلٰمِ : ایک لڑکا اسْمُهٗ : اس کا نام يَحْيٰى : یحییٰ لَمْ نَجْعَلْ : نہیں بنایا ہم نے لَّهٗ : اس کا مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل سَمِيًّا : کوئی ہم نام
اے زکریا ! ہم تم کو ایک لڑکے کی بشارت دیتے ہیں جس کا نام یحیٰی ہے اس سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی شخص پیدا نہیں کیا
7۔ 11۔ اتنی عبارت یہاں گویا اور ہے کہ حضرت زکریا (علیہ السلام) کی دعا قبول ہوئی اور حکم ہوا کہ ہم تم کو لڑکے ہونے کی خوشی سناتے ہیں جس کا نام یحییٰ ہے اب آگے حضرت زکریا (علیہ السلام) کے تعجب کا بیان ہے کہ جب ان کی دعا قبول ہوئی اور لڑکے ہونے کی ان کو خبر سنائی گئی تو اس سے وہ بہت خوش ہوئے اور لڑکے کے ہونے کی کیفیت کا سوال کیا یہ تعجب زکریا ( علیہ السلام) کو اس سبب سے ہوا کہ بیوی بانجھ اور بوڑھی تھی اور آپ بھی اس قدر بوڑھے ہوگئے کہ ہاتھ پیر اکڑ گئے تھے کیونکہ اب تو بوڑھے باپ اور بانجھ ماں موجود ہیں اس صاحب قدرت نے تو انسان کو ایسی حالت میں پیدا کیا کہ جب انسان کچھ بھی نہیں تھا ترمذی ابوداؤد اور صحیح ابن حبان کے حوالہ سے ابو موسیٰ ؓ اشعری کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے 1 ؎ کہ آدم ( علیہ السلام) کے پتلے کی مٹی میں اللہ نے تمام اولاد آدم کے پتلوں کی مٹی جگہ جگہ سے لی ہے جس سے سلسلہ بسلسلہ اولاد آدم (علیہ السلام) کی پیدائش اس طرح ہوچکی آتی ہے کہ کوئی گورا ہے اور کوئی کالا اس حدیث سے (وقد خلقتک من قبل ولم تک شیئا) کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جس صاحب قدرت نے انسان کی پیدائش کی ابتدا ایسی حالت سے کی ہے کہ جب انسان کچھ بھی نہیں تھا اس صاحب قدرت کے آگے بوڑھے باپ اور بانجھ ماں سے لڑکے کا پیدا کردینا کچھ مشکل نہیں ہے اور عرب لوگ العود العاقی سوکھی لکڑی کو کہتے ہیں اس لیے (وقد بلغت من الکبر عتیا) کا مطلب یہ ہے کہ بڑھاپے کے سبب سے سارا بدن سوجھ کر بالکل ڈھانچ ہوگیا ہڈی سے چمڑا الگ ہوگیا۔ شاہ صاحب نے اکڑنے کے لفظ سے اسی مطلب کو ادا کیا ہے ان آیتوں میں یحییٰ (علیہ السلام) کے پیدا ہونے کی خوش خبری کا جو ذکر ہے اس سے زکریا ( علیہ السلام) کو یہ تو معلوم ہوگیا تھا کہ ان کی دعا قبول ہوگئی مگر یہ نہیں معلوم ہوا تھا کہ اس قبولیت کا ظہور کب تک ہوگا اس لیے زکریا (علیہ السلام) نے قبولیت کے ظہور کی نشانی اللہ تعالیٰ سے پوچھی اور اللہ تعالیٰ نے جو نشانی اس کی بتلائی اسی کا ذکر آگے کی دونوں آیتوں میں ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اپنی بی بی کے حاملہ ہونے کے وقت اے زکریا باوجود تندرست ہونے کے تین راتوں تک تم سوائے تسبیح و تہلیل کے کس سے اور کچھ بات نہ کرسکو گے وقت مقررہ پر زکریا ( علیہ السلام) اپنے حجرہ سے جو نکلے تو قوم کے لوگوں سے بات نہ کرسکے اس لیے انہوں نے صبح وشام یاد الٰہی کا حکم قوم کے لوگوں کو اشارہ سے سمجھایا اب مدت حمل کے بعد یحییٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے جن کا ذکر آگے آتا ہے۔ 1 ؎ دیکھیے ج 3 ص 291
Top