Ahsan-ut-Tafaseer - Maryam : 83
اَلَمْ تَرَ اَنَّاۤ اَرْسَلْنَا الشَّیٰطِیْنَ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ تَؤُزُّهُمْ اَزًّاۙ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اَنَّآ اَرْسَلْنَا : بیشک ہم نے بھیجے الشَّيٰطِيْنَ : شیطان (جمع) عَلَي : پر الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع) تَؤُزُّهُمْ : اکساتے ہیں انہیں اَزًّا : خوب اکسانا
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ ہم نے شیطانوں کو کافروں پر چھوڑ رکھا ہے کہ وہ ان کو برانگیختہ کرتے رہتے ہیں ؟
83۔ 86:۔ اوپر کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے منکرین حشر کا ذکر فرمایا تھا اس آیت میں ان کے انکار کا سبب فرمایا ہے کہ ان کے کفر کے سبب سے شیطان ان پر ایسا مسلط ہوگیا ہے کہ ان کی عقل بالکل جاتی رہی ہے کیسی ہی موٹی اور ظاہر بات کیوں نہ ہو شیطان ان کو کسی بات کے سمجھنے کا موقع نہیں دیتا دنیا میں چھوٹی سے چھوٹی عقل کا آدمی کوئی چھوٹے سے چھوٹا کام کرتا ہے تو کوئی فائدہ اس کام کا ضرور سوچ لیتا ہے مکان کوئی بناتا ہے تو رہنے کے خیال سے کنواں کوئی کھدواتا ہے تو پانی پینے کے خیال سے اتنا بڑا، جہاں اللہ تعالیٰ جیسے صاحب حکمت نے کیا بےفائدہ پیدا کیا ہے کہ عمر بھر جو اللہ کی فرمانبرداری کرے اور دنیا بھی اس کی کچھ خوشحالی سے نہ گزرتی ہو اس کی مٹی بھی یونہی اکارت جائے نہ حشر ہو نہ قیامت نہ کبھی اس کی نیکی کی جزا کا موقع اس کو ملے اور جس شخص نے عمر بھر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی ہو اور دنیا میں بھی مال سے اولاد سے وہ خوش رہا ہو اس کی مٹی بھی یونہی اکارت کبھی کوئی پرستش کا موقع ہی نہیں۔ خدا کی خدائی تو دنیا کے شروع سے اب تک قائم ہے دنیا کی چار دن کی سلطنت میں بھی کوئی اندھا دھن کرے کہ نیک وبد کو ایک ہی لکڑی سے ہانکے تو چار دن بھی سلطنت نہ چل سکے غرض ایسی ایسی موٹی باتیں شیطان ان منکرین حشر کو سمجھنے نہیں دیتا لیکن اے رسول اللہ کے ایسے لوگوں پر عذاب کی جلدی نہ کرو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے حال سے غافل نہیں ہے دن دن گھڑی گھڑی ان کی عمر کی اس کے روبرو ہے جس دوزخ کا ان کو اب انکار ہے آنکھ بند ہوتے ہی جب اس دوزخ میں جھونک دیئے جائیں گے اور فرشتے ان کو قائل کریں گے کہیں گے (ھذہ النار التی کنتم بھا تکذبون) جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ وہی دوزخ ہے جس کو تم لوگ دنیا میں جھٹلاتے تھے تو پھر قائل ہوجانے کے بعد ان کا یہ سب انکار نکل جائے گا اور یہی پکاریں گے کہ کاش ہم پھر دوبارہ دنیا میں بھیجے جائیں تاکہ نیک عمل کریں یہ بھی ذرا یاد رہے کہ دنیا میں ایسے مسلمان بھی ہیں کہ رات دن شیطان ان پر ایسا مسلط ہے کہ اگرچہ وہ کافروں کی طرح حشر و قیامت کا زبان سے صاف انکار تو نہیں کرتے مگر رات دن کے عمل ان کے ایسے ہیں کہ گویا آخرت کی سزا وجزا ان کے نزدیک کوئی چیز نہیں ہے ان کو بھی ذرا اس آیت کے مضمون سے عبرت پکڑنی چاہیے اور شیطان کو اپنا دشمن جانی گننا چاہیے دوست جانی گن کر رات دن اس کے کہنے میں نہ رہنا چاہیے کوئی گھڑی تو اپنے پیدا کرنے والے کا کہنا بھی مان لینا چاہیے یہ تو معلوم ہے کہ شیطان نے ان کو پیدا نہیں کیا پیدا کرنے والا تو اور ہی ہے اس سے بھی ذرا معاملہ اچھا رکھنا چاہیے جس حشر کے یہ لوگ منکر تھے آگے کی آیت میں اس کا ذکر فرمایا کہ اس دن شریعت کے پابند پرہیزگار لوگ قبروں سے اٹھ کر مہمانوں کی طرح سواریوں پر میدان محشر تک جائیں گے اور منکر شریعت لوگوں کو قیدیوں کی طرح دوزخ کی آگ گھیر کر میدان محشر تک لیجائے گی۔ صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ ؓ سے جو روایت ہے اس میں ان دونوں گروہوں کا ذکر تفصیل سے ہے 1 ؎۔ سورج کے پاس آجانے اور دوزخ کے میدان محشر میں لائے جانے سے میدان حشر میں بہت گرمی ہوگی جس کے سبب سے پیاس تو سب کو لگے گی مگر اللہ کے رسول ﷺ پرہیز گار لوگوں کو حوض کوثر کا پانی پلاویں گے اس واسطے جنت میں جانے سے پہلے ان لوگوں کی پیاس تو بجھ جائے گی اور منکر شریعت لوگوں کو اسی پیاس کی حالت میں دوزخ کا جھونکا نصیب ہوگا اسی کا ذکر آیت کے آخر میں ہے میدان حشر کی گرمی کا اور سورج کے پاس آجانے کا ذکر مسند امام احمد صحیح ابن حبان اور مستدرک حاکم کی عقبہ بن عامر کی معتبر روایت میں ہے 2 ؎۔ اسی طرح دوزخ کے میدان محشر میں لائے جانے کا ذکر صحیح مسلم کی عبد اللہ بن مسعود کی روایت میں ہے 3 ؎۔ اور نیک لوگوں کو حوض کوثر کا پانی پلانے کا ذکر عبداللہ بن عمر ؓ کی صحیح روایت سے مسند امام احمد میں ہے 4 ؎۔ سورة الکرثر میں آئے گا کہ یہ حوض کوثر اللہ کے رسول ﷺ کو ملی ہے جس کو معراج کی رات میں آپ نے دیکھا ہے حشر کے دن اس نہر میں سے اس حوض میں پانی آئے گا اس لیے اس کو حوض کوثر کہتے ہیں۔ 1 ؎ صحیح مسلم ص 384 ج 2 باب فناء الدنیا وبیان الحشر۔ 2 ؎ الترغیب ص 295 ج 2 فصل فی الحشر۔ 3 ؎ مشکوٰۃ ص 502 باب صفۃ النار واہلہا 12۔ 4 ؎ الترغیب ص 304 فصل فی الحوض الخ۔
Top