Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Baqara : 125
وَ اِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَ اَمْنًا١ؕ وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى١ؕ وَ عَهِدْنَاۤ اِلٰۤى اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَهِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّآئِفِیْنَ وَ الْعٰكِفِیْنَ وَ الرُّكَّعِ السُّجُوْدِ
وَاِذْ : اور جب جَعَلْنَا : ہم نے بنایا الْبَيْتَ : خانہ کعبہ مَثَابَةً : اجتماع کی جگہ لِلنَّاسِ : لوگوں کے لئے وَاَمْنًا : اور امن کی جگہ وَاتَّخِذُوْا : اور تم بناؤ مِنْ : سے مَقَامِ : مقام اِبْرَاهِيمَ : ابراہیم مُصَلًّى : نماز کی جگہ وَعَهِدْنَا : اور ہم نے حکم دیا اِلٰى : کو اِبْرَاهِيمَ : ابراہیم وَاِسْمَاعِيلَ : اور اسماعیل اَنْ طَهِّرَا : کہ پاک رکھیں بَيْتِيَ : وہ میرا گھر لِلطَّائِفِينَ : طواف کرنے والوں کیلئے وَالْعَاكِفِينَ : اور اعتکاف کرنے والے وَالرُّکَعِ : اور رکوع کرنے والے السُّجُوْدِ : اور سجدہ کرنے والے
اور جب ہم نے خانہ کعبہ کو لوگوں کے لئے جمع ہونے کی اور امن پانے کی جگہ مقرر کرلیا۔ اور (حکم دیا کہ) جس مقام پر ابراہیم کھڑے ہوئے تھے اس کو نماز کی جگہ بنالو۔ اور ابراہیم اور اسماعیل کو کہا کہ طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع کرنے والوں اور سجدہ کرنے والوں کے لئے میرے گھر کو پاک صاف رکھا کرو۔
(125 ۔ 128) ۔ حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس آیت میں اللہ کے گھر کو پاک رکھنے سے یہ مراد ہے کہ شرک کی باتوں بت پرستی وغیرہ سے اس کو پاک رکھا جاوے 1۔ سورة حج کی آیت { وَاِذْ بَوَّاْنَا لِاِ بْرَاہِیْمَ مَکَانَ الْبَیْتَ اَنْ لاَّ تُشْرِکَ نِیْ شَیْئًا } ( 26۔ 22) سے حضرت عبد اللہ بن عباس کی اس تفسیر کی پوری تائید ہوتی ہے کیوں کہ معنی اس آیت کے یہ ہیں کہ حضرت ابرہیم (علیہ السلام) کو بیت اللہ بنانے کے لئے وہ خالی جگہ اس ہدایت سے بتائی گئی تھی کہ وہ اس گھر کو ایسی خالص توحید کی نیت سے بناویں کہ یہ گھر بت پرستی سے پاک رہے اور جب خالی جگہ پر کعبہ بن گیا اور آیندہ نسل ابراہیمی سے بستی بڑھ کر وہاں ایک شہر آباد ہونے کی امید حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ہوگئی تو اس ہدایت الٰہی کے موافق وہ دعا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کی جس کا ذکر سورة ابراہیم میں ان لفظوں سے ہے { وَاِذْ قَالَ اِبْرَاہِیْمَ رَبِ اجْعَلْ ھٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا وَّاجْنُبْنِیْ وَبَنِیْ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَ صْنَامَ رَبِّ اِنَّہُنَّ اَضْلَلْنَ کَثِیْرًا مِنَ النَّاسِ } (14۔ 35) مطلب اس دعا کا یہ ہے کہ یا اللہ اس جگہ کو امن کی جگہ بنا دے اور مجھ کو اور میری اولاد کو بت پرستی کی بلا سے بچا جو بلا اس جگہ کے گردونواح میں کثرت سے پھیل رہی ہے جس نے بہتوں کو گمراہ کردیا ہے۔ اس تفسیر میں یہ بات بیان کی جا چکی ہے کہ قرآن شریف میں پچھلے قصے محض قصہ کے طور پر نہیں ذکر کئے جاتے بلکہ ان کے ذکر سے زمانہ نزول قرآن کا کوئی مطلب تاریخی دلیل سے ثابت کیا جاتا ہے چناچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ ذکر مشرکین مکہ کی اس تنبیہ کے لئے ہے کہ اگرچہ بنائے کعبہ کے وقت سے ہی مکہ میں شرک نہ پھیلنے کا اہتمام تھا مگر اغوائے شیطانی سے وہاں بت پرستی پھیل گئی اور اس شرک کے دفع کرنے کے ارادے سے اللہ نے نبی آخر الزمان ﷺ کو پیدا کیا ہے اور خواہ نرمی سے ہو یا سختی سے اللہ کا یہ ارادہ وقت مقررہ پر ضرور پورا ہوگا اور دعائے ابراہیمی کا اثر مکہ میں جس طرح پہلے تھا وہی قائم ہوجائے گا۔ اللہ سچا ہے اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ آخر کو مکہ کیا کل جزیرہ عرب سے بت پرستی ایسی گئی کہ جس کے آنے کا خوف اب قیامت تک جاتا رہا۔ چناچہ صحیح مسلم میں حضرت جابر سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا شیطان جزیرہ عرب کی بت پرستی سے تو اب مایوس ہوگیا ہاں جزیرہ عرب میں اس کا اسی قدر کام باقی رہ گیا ہے کہ وہ مسلمانوں کو آپس میں لڑائے گا۔ 2۔ قسطلانی میں ہے کہ کعبہ دس دفعہ بنایا گیا ہے پہلے دفعہ فرشتوں نے بنایا پھر حضرت آدم نے پھر شیث نے پھر حضرت ابرہیم (علیہ السلام) نے پھر قوم عمالقہ کے لوگوں نے پھر قوم جرہم کے ایک شخص نے جس کا نام حارث بن مضاض تھا پھر قصی نے جو پانچویں پیڑی میں آنحضرت ﷺ کا دادا تھا پھر قریش نے پھر ابن زبیر نے پھر حجاج نے یہی عمارت اخیر تک رہے گی 3۔ صحیحین وغیرہ میں روایتیں ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ یاجوج ماجوج کے نکلنے کے بعد جب حج عمرہ موقوف ہوجائے گا تو ایک سوکھی سوکھی پنڈلیوں والا حبشی اس کو ڈھائے گا 4۔ نبوت کی دعا میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو منع کیا تھا کہ ظالم ناانصاف اولاد کے لئے نبوت کی دعا نہ مانگی جائے۔ اسی خیال سے یہاں کشایش رزق کی دعا میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فقط ایمان دار اولاد کے لئے کشائش رزق کی دعا کی اللہ تعالیٰ نے فرمایا نہیں کشائش رزق دنیوی میں اس قید کے لگانے کی ضرورت نہیں۔ اس دعا کے مستحق رسول محمد ﷺ ہیں اور امت مسلمہ آپ کی امت اور حکمت آپ کی سنت مسند امام احمد وغیرہ میں جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ انبیاء کے گروہ میں سب سے پہلے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے آنحضرت ﷺ کا ذکر اپنی دعا میں کیا ہے پھر اور نبیوں نے آپ کے پیدا ہونے اور نبی آخر الزمان ہونے کی خبر دی ہے 1۔
Top