Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Baqara : 139
قُلْ اَتُحَآجُّوْنَنَا فِی اللّٰهِ وَ هُوَ رَبُّنَا وَ رَبُّكُمْ١ۚ وَ لَنَاۤ اَعْمَالُنَا وَ لَكُمْ اَعْمَالُكُمْ١ۚ وَ نَحْنُ لَهٗ مُخْلِصُوْنَۙ
قُلْ : کہہ دو اَتُحَآجُّوْنَنَا : کیا تم ہم سے حجت کرتے ہو فِي ۔ اللہِ : میں۔ اللہ وَهُوْ : وہی ہے رَبُّنَا : ہمارا رب وَرَبُّكُمْ : اور تمہارا رب وَلَنَا : اور ہمارے لئے اَعْمَالُنَا : ہمارے عمل وَ : اور لَكُمْ : تمہارے لئے اَعْمَالُكُمْ : تمہارے عمل وَنَحْنُ : اور ہم لَهُ : اسی کے ہیں مُخْلِصُوْنَ : خالص
(ان سے) کہو کیا تم خدا کے بارے میں ہم سے جھگڑتے ہو حالانکہ وہی ہمارا اور تمہارا پروردگار ہے اور ہم کو ہمارے اعمال (کا بدلہ ملے گا) اور تم کو تمہارے اعمال کا اور ہم خاص اسی کی عبادت کرنے والے ہیں۔
(139 ۔ 141) ۔ اہل کتاب کی اس بات کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی ہے جو انہوں نے کہی تھی۔ کہ { کُوْنُوْا ھُوْدًا اَّوْ نَصَرٰی } مطلب آیت کا یہ ہے کہ ہم تم سب ایک خدا کے بندے اور فرمانبردار ہیں پھر تم جو اپنے آپ کو صاحب ہدایت اور راودوں کو گمراہ سمجھتے ہو اس کی دلیل تمہارے پاس کیا ہے رہی ہماری دلیل وہ خود تمہاری کتابیں ہیں جن میں یہ موجود ہے کہ نبی آخر الزمان کے پیدا ہونے اور نبی ہوجانے کے بعد اور کوئی دین قائم نہیں رہ سکتا اگرچہ تم نے اپنی کتابوں کی وہ آیتیں بدل ڈالی ہیں لیکن تمہارے علماء کے عبد اللہ بن سلام وغیرہ جو سلام لے آئے ہیں وہ تم کو ہر روقت قائل کرتے ہیں اس پر بھی تم کو کچھ حجت ہے۔ تو ہمارا کیا ہمارے آئے گا اور تمہارا تمہارے آگے مگر اتنی بات ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کی خالص عبادت کرتے ہیں اور تم شرک کرتے ہو اور تم یہ جو کہتے ہو کہ ابراہیم اسمٰعیل، اسحق، و یعقوب تمہارے دین پر تھے یہ بالکل خدا تعالیٰ کے نزدیک غلط ہے۔ جس کی تفصیل اوپر گذر چکی کہ یہ لوگ ملت ابراہیمی پر تھے اور خود تمہاری کتابوں میں بھی اس بات کی گواہی موجود ہے کہ یہ لوگ ملت ابراہیمی پر تھے اب تم جان بوجھ کر خدا تعالیٰ کے دین کی اس گواہی کو چھپاتے ہو تو یہ تمہاری بڑی بےانصافی ہے۔ ہاں اب یہ تو بتاؤ کہ تم اہل کتاب ہو کر جس بات کی خبر خود خدا تعالیٰ نے دے دی اس کو جو جھٹلاتے ہے تو کیا تمہارا علم کچھ خدا سے بھی بڑھا ہوا ہے پھر یہ فرمایا کہ جو کچھ یہ لوگ کر رہے ہیں اس کی اللہ تعالیٰ کو سب خبر ی ہے وہ اس سے غافل نہیں ہے ایک دن اس کا مؤاخذہ ہونے والا ہے اور پھ دوبارہ اس بات کو یاد دلایا جو اوپر کی آیتوں میں فرمائی تھی کہ قیامت کے دن ہر ایک کے اعمال اس کے ساتھ ہوں گے پچھلے لوگوں کے اعمال کے گھڑی گھڑی کے حوالہ سے ان کو کیا فائد ہے ہے اور پھر وہ حوالہ بھی غلط جو اور وبال کا سبب ہے۔ حضرت ابوہریرہ کی صحیح مسلم کی حدیث اوپر گذر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ خواہ یہودی ہو خواہ نصرانی جو کوئی نبی آخر الزمان کے زمانہ میں ہوگا اور نبی آخر الزمان پر ایمان نہ لائے گا اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے 1۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی آخر الزمان کے نبی ہوجانے کے بعد اہل کتاب کو سوائے پیروی شریعت محمدی کے اور کچھ چارہ نہیں ہے اس حدیث کی تائید سورة آل عمران کی آیت { وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلاَمِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَھُوَفِی الْاٰخِرَۃِمِنَ الْخَاسِرِیْنَ } سے ہوتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مصلحت الٰہی کے موافق دین اسلام کے مقابلہ میں اور کوئی دین اس آخر زمانہ میں قابل قبول الٰہی نہیں ہے سب کو یہی دین اب اختیار کرنا چاہیے جو کوئی اس کے خلاف کرے گا وہ عقبیٰ میں نقصان اٹھائے گا۔ کیوں کہ عقبیٰ میں وہی شخص فائدہ اٹھا سکتا ہے جو مرضی الٰہی کے موافق کام کرے حاکم کے خلاف مرضی اور خلاف قانون کوئی کام کرنا اسی کا نام جرم ہے۔
Top