Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Baqara : 149
وَ مِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ١ؕ وَ اِنَّهٗ لَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ١ؕ وَ مَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ
و : اور َمِنْ حَيْثُ : جہاں سے خَرَجْتَ : آپ نکلیں فَوَلِّ : پس کرلیں وَجْهَكَ : اپنا رخ شَطْرَ : طرف الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ : مسجد حرام وَاِنَّهٗ : اور بیشک یہی لَلْحَقُّ : حق مِنْ رَّبِّكَ : آپ کے رب سے وَمَا : اور نہیں اللّٰهُ : اللہ بِغَافِلٍ : بیخبر عَمَّا : اس سے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو
اور تم جہاں سے نکلو (نماز میں) اپنا منہ مسجد محترم کی طرف کرلیا کرو بےشبہ وہ تمہارے پروردگار کی طرف سے حق ہے اور تم لوگ جو کچھ کرتے ہو خدا اس سے بیخبر نہیں
(149 ۔ 150) ۔ قرآن شریف میں یہ پہلا حکم ناسخ ہے جس سے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم منسوخ ہوا ہے۔ یہ اوپر گذر چکا ہے کہ یہود میں جہاں اور غلط باتیں رواج پکڑ گئی تھیں ان میں سے ایک بات یہ بھی تھی کہ احکام الٰہی میں سے کوئی حکم کبھی منسوخ نہیں ہوتا اپنے اس غلط اعتقاد کی وجہ سے تبدیل قبلہ کے باب میں وہ لوگ طرح طرح سے مسلمانوں کو بہکاتے تھے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس حکم کے نازل فرمانے میں یہ اہتمام فرمایا کہ تمہید کے طور پر پہلے آیت { سَیَقُوْلُ السُّفَہَآ ئُ } نازل فرما کر مسلمانوں کو ہوشیار کردیا اور اب حکم تبدیل قبلہ کو بھی تاکید کے طور پر وہ دفعہ فرمایا تورات میں جہاں نبی آخر الزمان کی اور علامتوں اور نشانیوں کا ذکر تھا وہاں ایک علامت تبدیل قبلہ کی بھی تھی اس واسطے فرمایا کہ تبدیل قبلہ کے بعد ناانصافی سے اہل کتاب کو باتیں بنانے کے سوا تورات کے حوالہ سے کچھ بحث کرنے کا موقع باقی نہیں رہا پھر فرمایا اگر ان میں سے کوئی شخص کچھ غلط حجت کرے بھی تو اس کا کچھ خوف نہیں کرنا چاہیے بلکہ خوف تو ہر مسلمان کو اس بات کا چاہیے کہ کہیں اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کی مخالفت نہ ہوجاوے۔ کہ اس کا عذاب بھگتنا پڑے حالانکہ اس کا عذاب انسان کی برداشت سے باہر اور بہت سخت ہے ترمذی وغیرہ کی روایت سے حضرت ابوذر کی حدیث مشہور ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے صحابہ سے فرمایا کہ عذاب الٰہی کا جو حال مجھ کو معلوم ہے اگر وہ حال تم لوگوں کو معلوم ہوجاوے تو تمہاری ہنسی بالکل کم ہوجائے اور تم اپنے گھروں اور اہل و عیال کو چھوڑ کر جنگل کو نکل جاؤ۔ ترمذی نے اس حدیث کو حسن غریب کہا ہے 1۔ جو لائق عمل ہے اس لئے اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انسان کو بہ نسبت اور کسی کی مخالفت کے خوف کے اللہ کے حکم کی مخالفت سے اس کے عذاب کا بڑا خوف کرنا چاہیے۔ نعمت الٰہی کے پورا کرنے کا یہ مطلب ہے کہ جس طرح سے تم لوگ ملت ابراہیمی کی نعمت پر تھے جو شرک سے بالکل پاک و صاف ہے اسی طرح قبلہ ابراہیمی کا حکم نازل ہوجانے سے وہ نعمت اب پوری ہوگئی۔
Top