Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Baqara : 224
وَ لَا تَجْعَلُوا اللّٰهَ عُرْضَةً لِّاَیْمَانِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْا وَ تَتَّقُوْا وَ تُصْلِحُوْا بَیْنَ النَّاسِ١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
وَلَا تَجْعَلُوا : اور نہ بناؤ اللّٰهَ : اللہ عُرْضَةً : نشانہ لِّاَيْمَانِكُمْ : اپنی قسموں کے لیے اَنْ : کہ تَبَرُّوْا : تم حسن سلوک کرو وَ : اور تَتَّقُوْا : پرہیزگاری کرو وَتُصْلِحُوْا : اور صلح کراؤ بَيْنَ : درمیان النَّاسِ : لوگ وَاللّٰهُ : اور اللہ سَمِيْعٌ : سنے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور خدا (کے نام) کو اس بات کا حیلہ نہ بنانا کہ (اس کی) قسمیں کھا کھا کر سلوک کرنے اور پرہیزگاری کرنے اور لوگوں میں صلح و سازگاری کرانے سے رک جاؤ اور خدا سب کچھ سنتا اور جانتا ہے
(224 ۔ 225) ۔ علمائے مفسرین نے اس آیت کی شان نزول دو بتائے ہیں ایک تو یہ کہ عبد اللہ بن رواحہ ؓ صحابی اور ان کے داماد بشر بن نعمان ؓ میں کچھ تکرار ہوگئی تھی اس پر عبد اللہ بن رواحہ ؓ نے قسم کھالی تھی کہ وہ اپنے داماد سے بات چیت نہ کریں گے اور نہ اس کی صورت دیکھیں گے اور نہ اس کے کسی نیک و بد میں شریک ہوں گے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ دوسری یہ کہ لوگوں نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ پر جو بہتان باندھا تھا اس بہتان میں مسطح ایک صحابیہ بھی عبد اللہ بن ابی منافق کے صلاح کار تھے ان مسطح کے باپ مسطح کی چھوٹی عمر میں مرگئے تھے اور مسطح کی ماں اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ میں قرابت تھی اس وجہ سے چھوٹی عمر سے مسطح کو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے پالا تھا۔ اب جو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے سنا کہ عبد اللہ بن ابی نے جو حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی نسبت بہتان اٹھایا ہے اس میں یہ مسطح بھی شریک ہے تو غصہ میں آکر حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے مسطح کا جو کچھ مقرر کر رکھا تھا وہ موقوف کردیا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی عبداللہ بن ابی منافق نے جو بہتان عائشہ صدیقہ ؓ پر باندھا تھا اس کی پوری تفصیل تو سورة نور میں آئے گی۔ لیکن خلاصہ اس قصہ کا یہ ہے کہ 6 ؁ ہجری میں جب آنحضرت ﷺ بنی مصطلق کی لڑائی سے فارغ ہو کر مدینہ تشریف لا رہے تھے تو راستہ میں پچھلے راستے سے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ حاجت کو جنگل میں تشریف لے گئیں ابھی یہ واپس نہیں آئی تھیں کہ اتنے میں قافلہ کے کوچ کا وقت آگیا اور قافلہ والوں نے اس خالی کجا کو جس میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سوار ہوا کرتی تھیں یہ خیال کر کے کہ حضرت عائشہ ؓ اس میں ہیں وہ کجا وہ اونٹ پر لاد دیا اور قافلہ چل نکلا وہاں جنگل میں حضرت عائشہ ؓ کے گلے کا ہار گرگیا تھا اس کے ڈہونڈنے میں ان کو ذرا دیر ہوگئی جب ہار کو ڈھونڈھ کر یہ وہاں تشریف لائیں جہاں قافلہ اترا تھا تو قافلہ روانہ ہو کر بہت دور نکل چکا تھا آخر یہ پریشان ہو کر جنگل میں لیٹ گئیں اور ان کی آنکھ لگ گئی اتنے میں صبح ہوگئی صبح ان کے کان میں انا للہ کے پڑھنے کی آواز آئی۔ آنکھ کھول کر دیکھا تو صفوان بن معطل ؓ صحابی ہیں ان کو دیکھ کر حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے اپنا منہ ڈھانک لیا یہ صفوان قافلہ کے پیچھے رہ گئے تھے جب یہ اس مقام پر پہنچے جہاں قافلہ اترا ہوا تھا تو انہوں نے تن تنہا ایک شخص کو سوتے ہوئے دیکھا پردہ کی آیت کے نازل ہونے سے پہلے صفوان نے حضرت عائشہ ؓ کو دیکھا تھا اس لئے ان کو پہچان لیا۔ اور سمجھ گئے کہ قافلہ سے بچھڑ کر یہ یہاں رہ گئیں ہیں ان کے جاگ اٹھنے کی غرض سے صفوان ؓ نے انا للہ پڑھی تھی جب یہ جاگ اٹھیں تو صفوان نے اپنا اونٹ بٹھایا اور حضرت عائشہ ؓ اس پر سوار ہوئیں اور صفوان اونٹ کے ساتھ ہوئے اور قافلہ کے پیچھے یہ دونوں بھی مدنیہ میں داخل ہوگئے اس پر عبد اللہ بن ابی اور چند لوگوں نے مل کر ان دونوں پر بد فعلی کا بہتان اٹھایا جس کی برأت اللہ تعالیٰ نے سورة نور میں نازل فرمائی ہے۔ حاصل معنی اس آیت کے یہ ہیں کہ کسی کام سے رکنے کے لئے اللہ کی قسم کھا کر ما بعد میں اگر آدمی دیکھے کہ قسم پر قائم نہ رہنے کی صورت میں دینی یا دنیوی کوئی زیادہ فائدہ کی بات ہے تو ایسی حالت میں ضرور اس فائدہ کی بات کو کرلینا چاہیے اور قسم کا کفارہ دے دینا چاہیے قسم کے کفارہ کا ذکر آگے سورة مائدہ میں آئے گا۔ کہ دس مسکینوں کو کھانا کھلا دینا ہے یا کپڑا بنا دینا یا ایک بردہ آزاد کرنا یا تیس روزے رکھنا صحیحین میں حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو میری ہر ایک قسم ایسی ہے کہ قسم کھانے کے بعد کوئی چیز اور میں اس چیز سے بہتر دیکھ پاؤں جس چیز پر میں نے قسم کھائی تو فورًا میں اپنی قسم کا کفارہ دے دوں اور اس بہتر کام کو ضرور کرلوں 1 سو اس حدیث کے اور بھی صحیح حدیثیں اس باب میں وارد ہوئی ہیں ابو داؤد کی صحیح روایتوں میں یہ بھی ہے کہ قطع رحم۔ یا اور کسی گناہ کے کام کرنے پر اگر آدمی قسم کھا بیٹھے تو اس کے طرح کے کام کو چھوڑ دینا ہے قسم کا کفارہ ہے جدا کفارہ کی ضرورت نہیں ہے۔ 2۔ تکیہ کلام کے طور پر جو آدمی کے منہ سے واللہ باللہ نکل جاتا ہے یا ایک بات کو ایک طرح گمان کر کے آدمی قسم کھا لیوے اور حقیقت میں وہ بات اس طرح سے نہ ہو وہ قسم میں داخل نہیں نہ اس کا کفارہ ہے نہ اس پر کچھ مواخذہ ہے اسی کو یمین لغو کہتے ہیں اور اسی کا ذکر اس آیت میں ہے کہ یمین لغو پر کچھ مواخذہ نہیں ہے اور نہ وہ قسم ہے مواخذہ کے قابل وہی قسم ہے جو دل کے قصد سے ہو یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ قسم یا اللہ کے نام کی ہوتی ہے۔ جیسے اللہ کی قسم یا اللہ کی صفات کی ہوتی ہیں مثلاً جیسے اللہ کی جاہ و جلال کی قسم سوا اللہ کی ذات اور صفات کے اور چیزوں کی قسم کھانا جیسے لوگوں میں رواج ہے کہ فلاں کے سر کی قسم یا فلاں کی جان کی قسم یہ بالکل منع ہے۔ صحیحین میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سب ساتھ تھے حضرت عمر ؓ نے کسی بات پر اپنے باپ کی قسم کھائی آنحضرت ﷺ نے فورًا ان کو روکا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کو اس سے منع کیا ہے کہ سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کسی چیز کی قسم کھاؤ اس لئے جو کوئی قسم کھائے تو اللہ کی کھائے نہیں تو چپکا رہے 1۔ قسم کھانے کی آدمی کی دو حالتیں ہیں یا آئندہ کی کسی بات پر قسم ہوتی ہے کہ آئندہ اتنی مدت کے بعدایسا ہوگا۔ یا کسی گذری ہوئی بات پر قسم ہوتی ہے کسی آدمی کو گذشتہ بات معلوم ہو اور پھر وہ لالچ یا رعایت کے سبب سے جان بوجھ کر اصلی حالت کو چھپا کر قسم کھا جائے تو یہ کبیرہ گناہ ہے اور اسی کو یمین غموس یعنی گناہ میں ڈوبی ہوئی قسم کہتے ہیں۔
Top