Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Baqara : 46
الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّهُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّهِمْ وَ اَنَّهُمْ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ۠   ۧ
الَّذِیْنَ : وہ جو يَظُنُّوْنَ : یقین رکھتے ہیں اَنَّهُمْ : کہ وہ مُلَاقُوْ : رو برو ہونے والے رَبِّهِمْ : اپنے رب کے وَاَنَّهُمْ : اور یہ کہ وہ اِلَيْهِ : اس کی طرف رَاجِعُوْنَ : لوٹنے والے
جو یقین کئے ہوئے ہیں کہ وہ اپنے پروردگار سے ملنے والے ہیں اور اس کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں
اوپر کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے یہود کو ان کی چند بری خصلتوں سے روکا تھا۔ اب اس آیت میں عام طور پر ارشاد ہے کہ انسان کو اپنی بری خصلتوں سے باز رہنے کے لئے دو چیزوں سے مدد لینی چاہیے۔ اول تو صبر یعنی شریعت میں جو باتیں منع ہیں ان کے کرنے سے سے اپنے جی کو روکنا۔ دوسری چیز نماز ہے کہ آدمی کی بری خصلتیں چھڑا دیتی ہے۔ دل کی پریشانی دور کردیتی ہے۔ مسند امام احمد میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ایک شخص کا ذکر آنحضرت ﷺ کے روبرو اس طرح پر آیا کہ وہ رات کو تو نماز پڑہتا ہے اور دن کو چوری کرتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اس کی نماز اس کی چوری کی عادت چھوڑا دیوے گی 1۔ مسند امام احمد اور ابو داؤد میں حذیفہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ کا دل جب کسی بات سے پریشان ہوتا تو آپ نماز پڑھا کرتے تھے۔ 2۔ پھر فرمایا کہ اس طرح کی نماز جس سے بری خصلت چھوٹ جاوے اور دل کی پریشان رفع ہوجاوے ان ہی لوگوں کی ہے جو نماز پڑہتے وقت خدا کا خوف دل میں رکھتے ہیں اور یہ اعتقاد ان کے دل میں جما ہوا ہوتا ہے کہ ان کو ایک روز خدا کے رو برو جانا ہے اور یہ نماز ان کے نامہ اعمال میں لکھی جا کر اس روز خدا کے روبرو تولی جاوے گی جس تول میں اس کا عیب و صواب سب کھل جاوے گا۔ اور جو لوگ اوپر دل سے نماز پڑھتے ہیں۔ ان کی نماز میں یہ خصلتیں تو کجا ان پر تو نماز بار ہوجاتی ہے۔ نہ وقت کی پابندی ان سے ہوسکتی ہے نہ رکوع سجود کے لئے ان کو وقت ملتا ہے۔ اور نہ ایسی نماز سے ان کو کچھ فائدہ ہے۔ صحابہ کا قول ہے کہ جس شخص کی نماز اس کو بدی سے نہ روکے تو یہ سمجھنا چاہیے کہ ایسے شخص نے گویا نماز ہی نہیں پڑھی کیوں کہ بجائے قربت الٰہی کے ایسی نماز کے سبب سے ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ سے اور دوری نصیب ہوگی۔ اور ایسے ثواب عذاب کے مسئلہ میں صحابہ نے جو کچھ کہا ہے وہ اللہ کے رسول سے سن کر کہا ہے۔
Top