Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Baqara : 48
وَ اتَّقُوْا یَوْمًا لَّا تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْئًا وَّ لَا یُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَّ لَا یُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَّ لَا هُمْ یُنْصَرُوْنَ
وَاتَّقُوْا : اور ڈرو يَوْمًا : اس دن لَا تَجْزِیْ : بدلہ نہ بنے گا نَفْسٌ : کوئی شخص عَنْ نَّفْسٍ : کسی سے شَيْئًا : کچھ وَلَا يُقْبَلُ : اور نہ قبول کی جائے گی مِنْهَا : اس سے شَفَاعَةٌ : کوئی سفارش وَلَا يُؤْخَذُ : اور نہ لیا جائے گا مِنْهَا : اس سے عَدْلٌ : کوئی معاوضہ وَلَا : اور نہ هُمْ يُنْصَرُوْنَ : ان کی مدد کی جائے گی
اور اس دن سے ڈرو جب کوئی کسی کے کچھ بھی کام نہ آئے اور نہ کسی کی سفارش منظور کی جائے اور نہ کسی سے کسی طرح کا بدلہ قبول کیا جائے اور نہ لوگ (کسی اور طرح) مدد حاصل کرسکیں
بنی اسرائیل تورات کی آیتیں بدلنے اور چھپانے میں اللہ تعالیٰ کے رسول کو نہ جاننے میں اللہ تعالیٰ کی طرح طرح کی نافرمانی کرتے تھے اور اس پر یہ کہتے تھے کہ ہم لوگ نبی زادے ہیں۔ دنیا میں اگر کوئی برا کام ہم سے ہو بھی جائے گا تو ہمارے بڑے قیامت کے دن اللہ کی جناب میں ہماری شفاعت کر کے ہم کو دوزخ سے بچا لیویں گے۔ بنی اسرائیل کی اس بےبنیاد توقع کو جڑ سے اکھیڑ دینے کی تنبیہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور فرمایا کہ اس دن بےمرضی اللہ تعالیٰ کے کوئی کسی کی کسی طرح کی مدد یا سفارش نہیں کرسکتا۔ یہاں تک کہ ان کے بڑوں کے بڑے ابراہیم (علیہ السلام) خود اپنے باب کی شفاعت نہ کرسکیں گے۔ پھر ان کا تو کیا ذکر ہے۔ ترمذی وغیرہ میں معتبر سند سے جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جو لوگ سوائے شرک اور کبیرہ گناہ کر کے بغیر توبہ کے مرجاویں گے قیامت کے دن ان کی شفاعت ہوگی 3۔ رہا شرک اس کو تو اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے کہ { اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرِکْ بِہٖ } (4۔ 116/48) جو لوگ قبر پرستی پیر پرستی ریا کاری کے سبب سے کسی طرح کے شرک جلی یا خفی میں گرفتار ہیں انکو اپنے عقیدے اور عمل کی اصلاح جلدی بلکہ بہت جلدی کرنی چاہیے۔ ورنہ قیامت کے دن پچھتاوے کے اور ان کو کچھ چارہ نہ ہوگا۔ اور اس دن پچھتانا کچھ کام نہ آوے گا۔
Top