Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Baqara : 84
وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَكُمْ لَا تَسْفِكُوْنَ دِمَآءَكُمْ وَ لَا تُخْرِجُوْنَ اَنْفُسَكُمْ مِّنْ دِیَارِكُمْ ثُمَّ اَقْرَرْتُمْ وَ اَنْتُمْ تَشْهَدُوْنَ
وَاِذْ : اور جب اَخَذْنَا : ہم نے لیا مِیْثَاقَكُمْ : تم سے پختہ عہد لَا تَسْفِكُوْنَ : نہ تم بہاؤگے دِمَآءَكُمْ : اپنوں کے خون وَلَا تُخْرِجُوْنَ : اور نہ تم نکالوگے اَنفُسَكُم : اپنوں مِّن دِيَارِكُمْ : اپنی بستیوں سے ثُمَّ : پھر اَقْرَرْتُمْ : تم نے اقرار کیا وَاَنتُمْ : اور تم تَشْهَدُوْنَ : گواہ ہو
اور جب ہم نے تم سے عہد لیا کہ آپس میں کشت و خون نہ کرنا اور اپنے کو ان کے وطن سے نہ نکالنا تو تم نے اقرار کرلیا اور تم (اس بات کے) گواہ ہو
(84 ۔ 85): مدینہ میں اوس و خزرج دو بڑے قبیلے رہتے تھے۔ اسلام سے پہلے ان دونوں قبیلوں میں سخت عداوت تھی اور مدینہ کے اطراف میں یہود کے تین قبیلے بنی قنیقاع بنی نضیر اور بنی قریظہ رہتے تھے۔ بنی قنیقاع اور بنی نضیر کی عرب کے خزرج قبیلہ سے دوستی تھی اور بنی قریظہ کی اوس قبیلہ سے۔ جب یہ دونوں قبیلے عرب کے آپس میں لڑتے تو یہود بھی اپنے اپنے دوست قبیلہ کے ساتھ ہو کر لڑتے اور ایک طرف کے یہودیوں کے ہاتھ سے دوسری طرف کے یہودی مارے جاتے اور اگر ایک طرف کے یہود دوسری طرف گرفتار ہوجاتے تو تورات کے حکم کے موافق چھوڑوائی کی رقم دے کر اپنے قیدیوں کو ضرور یہود چھڑا لیتے۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں یہود کو قائل کیا کہ تورات میں جس طرح ایک یہودی کا دوسری یہود قیدی کی چھڑوائی دے کر چھوڑانے کا حکم ہے اسی طرح یہودیوں کی آپس کی لڑائی آپس کی جلاوطنی حرام ہے۔ پھر تورات کی بعض آیتوں پر اپنی مرضی کے موافق عمل کرنا اور بعض آیتوں پر عمل نہ کرنا یہ کونسی دینداری ہے۔ پھر فرمایا جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ تعالیٰ اس سے غافل نہیں ہے۔ بلکہ دنیا کی رسوائی عقبیٰ کا عذاب تمہاری سزا اللہ تعالیٰ کے نزدیک قرار پا چکی ہے دنیا کی رسوائی تو ہوچکی بنی قریظہ قتل ہوئے بنی نضیر بنی قینقاع جلا وطن کئے گئے۔ عقبیٰ کا عذاب باقی ہے جس کا ذکر آگے کی آیت میں ہے۔
Top