Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Baqara : 88
وَ قَالُوْا قُلُوْبُنَا غُلْفٌ١ؕ بَلْ لَّعَنَهُمُ اللّٰهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَلِیْلًا مَّا یُؤْمِنُوْنَ
وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا قُلُوْبُنَا : ہمارے دل غُلْفٌ : پردہ میں بَلْ : بلکہ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ : اللہ کی لعنت بِكُفْرِهِمْ : ان کے کفر کے سبب فَقَلِیْلًا : سو تھوڑے ہیں مَا يُؤْمِنُوْنَ : جو ایمان لاتے ہیں
اور کہتے ہیں ہمارے دل پردے میں ہیں (نہیں) بلکہ خدا نے ان کے کفر کے سبب ان پر لعنت کر رکھی ہے پس یہ تھوڑے ہی پر ایمان لاتے ہیں
سورة حم السجدہ میں یہود کے اس قول کی طرح اہل مکہ کا قول اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا ہے { وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا فِیْ اَکِنَّۃٍ مِمَّا تَدْعُوْنَنَا اِلَیْہِ وَ ِفْی آذَانِنَا وَقْرٌ وَّمِنْ بَیْنِنَا وَبَیْنِکَ حِجَابٌ فَاعْمَلْ اِنَّنَا عَامِلُوْنَ } ( 41: 5) جس کا مطلب یہ ہے کہ اے محمد تم اپنے دین پر رہو ہم اپنے دین پر رہیں گے کیونکہ غیر دین کی بات نہ ہمارے دل سمجھ سکتے ہی نہ ہمارے کان سن سکتے ہیں۔ نہ ہم میں اور غیر دین میں جو پردہ حائل ہے وہ اٹھ سکتا ہے۔ حاصل مطلب ان دونوں قولوں کا یہ ہے کہ غیر دین کی بات ہم پر کسی طرح اثر نہیں کرتی۔ اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ کے قول کا تو یہ جواب دیا کہ یہ لوگ عقبیٰ کے منکر ہیں۔ اس سبب سے ایسی باتیں کرتے ہیں۔ اور یہاں یہود کے اس قول کا جو جواب اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ یہ اہل کتاب اور عقبیٰ کے قائل ہو کر جو منکرین حشر کی سی باتیں کرتے ہیں تو ان پر خدا کی لعنت اور پھٹکار کا اثر یہ ہے کہ اہل مکہ کی تو ایک جماعت راہ راست پر آگئی ہے اور ان میں سے ابھی تھوڑے سے لوگ راہ راست پر آئے ہیں۔
Top