Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Baqara : 99
وَ لَقَدْ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ١ۚ وَ مَا یَكْفُرُ بِهَاۤ اِلَّا الْفٰسِقُوْنَ
وَلَقَدْ : اور البتہ اَنْزَلْنَا : ہم نے اتاری اِلَيْکَ : آپ کی طرف آيَاتٍ : نشانیاں بَيِّنَاتٍ : واضح وَمَا : اور نہیں يَكْفُرُ : انکار کرتے بِهَا : اس کا اِلَّا : مگر الْفَاسِقُوْنَ : نافرمان
اور ہم نے تمہارے پاس سلجھی ہوئی آیتیں ارسال فرمائی ہیں اور ان سے انکار وہی کرتے ہیں جو بد کردار ہیں
(99 ۔ 103) ۔ بعض یہود نے آنحضرت ﷺ سے یہ کہا تھا کہ حضرت موسیٰ کے عصا اور ید بیضا کی طرح آپ کو کوئی صریح اور صاف معجزہ نہیں ملا۔ پھر ہم آپ کو کیونکر اللہ کا رسول جان لیویں۔ اسی گفتگو میں بعض یہود نے یہ بھی کہا تھا کہ تورات میں ایسا کوئی عہد نہیں ہے جس سے ہم لوگوں پر نبی آخر الزمان کی مدد لازم ہو۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں اور یہود کی پہلی بات کا جواب تو یہ دیا کہ ان لوگوں کی وہ باتیں جو سوا ان کے علماء کے دوسرے کسی کو معلوم نہیں جب کہ نبی آخر الزمان پر قرآن کے ذریعہ سے روزانہ نازل ہوتی ہیں اور نبی آخر الزمان باوجود امی ہونے کے ان باتوں کی ایسی صحیح اطلاع ان لوگوں کو دیتے ہیں جن کو یہ لوگ اپنی کتاب آسمانی کے مطابق پاتے ہیں تو پھر نبی آخر الزمان کے نبی اور قرآن کے کتاب آسمانی ہونے کے لئے ان لوگوں کو اور کیا معجزہ درکا ہے۔ اور دوسری بات کا جواب یہ دیا کہ نبی آخر الزمان کی فرماں برداری اور مدد کے عہد کو یہ لوگ خوب جانتے ہیں لیکن یہ ان لوگوں کی عادت ہے کہ اپنے عہد پر یہ لوگ قائم نہیں رہتے۔ یہ اس لئے فرمایا کہ عہد تورات میں موجود ہے جس کا ذکر سورة اعراف کی آیت { اَلَّذِیْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَھُمْ فِی التَّوْرَاۃِ وَالْاِنْجَیْلَ } ( 7 : 157) میں ہے پھر فرمایا کہ ان کی بد عہدی کا سبب یہ ہے کہ ان لوگوں نے اپنی کتاب تورات کو تور بالکل ایسا چھوڑ دیا ہے کہ اس سے جان بوجھ کر انجان بن گئے ہیں۔ اور سلیمان (علیہ السلام) کے زمانہ میں جن وانس کے میل جول سے جادو کی جو دہت لگ گئی تھی اسی کو انہوں نے اپنا دین سمجھ رکھا ہے۔ اور جادو کے رواج کو یہ لوگ سلیمان (علیہ السلام) کی طرف جو منسوب کرتے ہیں یہ بات ان لوگوں کی بالکل غلط ہے۔ یہ جادو تو شیاطین اور ہاروت ماروت کے سبب سے پھیلا ہے ہاروت ماروت کے قصہ کا حاصل یہ ہے کہ بنی آدم کے طرح طرح کے گناہ دیکھ کر ملائکہ نے خدا تعالیٰ کے روبرو بنی آدم پر کچھ طعن کی تھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا اگر بنی آدم کی سی خواہشیں نفسانی تم میں ہوتیں تو تمہارا بھی گناہوں سے بچنا دشوار تھا۔ ملائکہ نے جواب دیا کہ ہم تو یا اللہ تیری نافرمانی ایسی کبھی نہ کریں گے جیسی نافرمانی بنی آدم کرتے ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ملائکہ میں سے بڑے عابد دو فرشتے جن کا نام ہاروت ماروت تھا چھانٹے اور انسان کی سب خواہشیں ان میں پیدا کر کے کوفہ کی سر زمین پر جو جگہ بابل ہے وہاں ان کو بھیجا اور وہاں وہ ایک عورت زہر نام پارسن کی الفت میں مبتلا ہو کر اس کے کہنے سے شراب پی گئے۔ اور شراب کے نشہ میں زنا کے علاوہ شرک اور قتل نفس کا گناہ بھی ان سے سرزد ہوا۔ اور ان گناہوں کی سزا میں قیامت تک اس پر طرح طرح کا عذاب ہوتا رہے گا۔ یہی دونوں فرشتے لوگوں میں پابندی شریعت کے جانچے کو پہلے جادو کے سیکھنے سے منع کرتے ہیں۔ پھر جب کوئی شخص زیادہ اصرار کرتا ہے تو اس کو جادو سکھاتے ہیں۔ ہاروت ماروت کے اس قصہ کے صحیح ہونے کا اکثر علمائے مفسرین نے انکار کیا ہے۔ لیکن حافظ ابن حجر نے اس قصہ کی روایتیں ایک رسالہ میں جمع کی ہیں جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس قصہ کی روایت درجہ صحت تک پہنچتی ہے۔ اور اس قصہ کی حاصل ہے 1۔ حضرت عبد اللہ بن عباس کا قول ہے کہ یہ قصہ حضرت ادریس ( علیہ السلام) کے زمانہ میں ہوا ہے اور اسی زمانہ میں ایک عورت زہرہ ایسی خوبصورت تھی جیسے تاروں میں زہر تارہ خوبصورت ہے۔ فرقہ معتزلہ یہ کہتے ہیں کہ سرے سے دنیا میں جادو کا وجود ہی نہیں ہے۔ لیکن قرآن شریف میں چند جگہ جو جادو کا ذکر ہے وہ اور صحیحین میں حضرت عائشہ کی وہ حدیث جس میں لبیدبن عاصم کا آنحضرت ﷺ پر جادو کرنے کا قصہ ہے 2۔ اہل سنت کے مذہب کی تائید کے لئے کافی ہے۔ رہا جادو کا سیکھنا اس میں امام ابوحنیفہ ومالک و احمد کا یہ مذہب ہے کہ جادو کا سیکھنا کفر اور سیکھنے کے بعد جو شخص جادو کا ایک دفعہ بھی عمل کرے اس کی سزا قتل ہے۔ امام شافعی علیہ الرحمۃ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ کے عمل سے نہیں بلکہ عادت کے طور پر چند دفعہ جادو کا عمل کرنے سے ایسا شخص واجب القتل ٹھہرتا ہے۔ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ سے جو روایت ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جادو کا سیکھنا کبیرہ گناہ ہے 3۔ اور ترمذی کی جندب کی روایت میں آپ نے جادو گر کی حد قتل قرار دی ہے 4۔ ان حدیثوں میں مطابقت پیدا کرنے کے لئے علماء نے کہا ہے کہ اگر بغیر دخل تقدیر الٰہی کے کوئی شخص جادو میں مستقل تاثیر کا اعتقاد رکھے تو کفر ہے ورنہ کبیرہ گناہ ہے۔ امام رازی نے معجزہ اور جادو کا فرق پہچاننے کی غرض سے جادو کے سیکھنے کو واجب لکھا ہے اور علماء نے اس پر اعتراض کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر ایسا ہوتا تو صحابہ ضرور جادو سیکھتے 5۔ آیۃ الکرسی قل اعوذ برب الفلق اور قل عوذ برب الناس میں رد سحر کا ایک خاص اثر اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے
Top