بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Anbiyaa : 1
اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَ هُمْ فِیْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَۚ
اِقْتَرَبَ : قریب آگیا لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے حِسَابُهُمْ : ان کا حساب وَهُمْ : اور وہ فِيْ غَفْلَةٍ : غفلت میں مُّعْرِضُوْنَ : منہ پھیر رہے ہیں
لوگوں کا حساب (اعمال کا وقت) نزدیک آپہنچا ہے اور وہ غفلت میں (پڑے اس سے) منہ پھیر رہے ہیں
1۔ 10:۔ مشرکین مکہ نے دین ابراہیمی کو بگاڑ کر بت پرستی اور طرح طرح کی خرابیاں اس میں پیدا کرلی تھیں جب قرآن شریف میں بت پرستی اور اس کی خرابیوں کی مذمت روز بروز اترنے لگی تو وہ لوگ آنحضرت ﷺ کی نسبت طرح طرح کی باتیں اور مشورے کرتے تھے۔ کوئی آنحضرت ﷺ کو جادوگر کہتا تھا ‘ کوئی شاعر کہتا تھا ‘ جس کا مطلب یہ تھا کہ جس طرح شاعر لوگ عقل کے برخلاف خیالی باتیں اپنے شعروں میں باندھتے ہیں۔ ویسی ہی خیالی باتیں قرآن شریف میں ہیں کوئی کہتا تھا کہ رات کو انہیں فرشتہ ہونا چاہئے۔ کوئی کہتا تھا اگر یہ رسول ہیں تو پہلے رسولوں کی طرح کوئی ایسا معجزہ کیوں نہیں لاتے جس سے ہم سب قائل ہوجائیں ‘ قریش کی باتوں کا جواب اللہ کے رسول ﷺ نے اتنا ہی دیا تھا کہ اللہ تعالیٰ سے آسمان و زمین کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں وہ تمہاری بےادب کی باتوں اور خفیہ مشوروں کو خوب سنتا اور جانتا ہے ‘ ایک دن اس کا خمیازہ تم کو بھگتنا پڑے گا لیکن قریش کے شبہات جو آنحضرت ﷺ کی نبوت کی نسبت تھے ‘ ان کا جواب ادا ہوجانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں اور فرما دیا کہ نبی آخر الزمان یہی ہیں دنیا کی مدت ان نبی آخرالزمان کے بعد بہت تھوڑی رہ گئی ہے ‘ حساب و کتاب قریب آن لگا ہے۔ قریش کو غفلت چھوڑ دینی چاہیے اور ان کے آس پاس جو اہل کتاب رہتے ہیں ان سے ان کو پوچھا لینا چاہیے کہ ہمیشہ سے رسول انسان ہی آتے رہے ہیں ‘ فرشتے نہیں آئے ‘ اور جو قریش کہتے ہیں کہ کوئی معجزہ ایسا پچھلے انبیاء کا سا ظاہر ہوجانا چاہیے۔ جس سے ہم سب قائل ہوجائیں ‘ اس کا جواب یہ ہے کہ تجارت کی غرض سے شام کے ملک کو جب یہ لوگ جاتے ہیں تو قوم ثمود کی اور قوم لوط کی بہت سی بستیاں ان کو اجڑی ہوئی نظر آتی ہیں۔ پھر ان کو یہ کیونکر معلوم ہوا کہ پہلے رسولوں کے معجزے سے پہلی امتیں قائل ہوگئیں ‘ اور ایمان لے آئیں ‘ یہ نہیں جانتے کہ اگر ایسا ہوتا تو یہ انجام ان پچھلی قوموں کا کیوں ہوتا جو ان کی آنکھوں کے سامنے ہے کہ طرح طرح کے عذابوں سے وہ قومیں اجڑ گئیں ‘ پھر فرمایا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے پہلے رسولوں سے وعدہ سچا کیا ‘ وہی اب ہونے والا ہے کہ باوجود فہمائش کے یہ لوگ راہ پر نہ آویں گے تو اجڑ جاویں گے۔ چناچہ بدر کی لڑائی میں اس وعدہ کا ظہور ہوا ‘ جس کا خلاصہ صحیح بخاری ومسلم کی انس بن مالک کی روایت کے حوالہ سے کئی جگہ بیان کردیا گیا ہے کہ اللہ کے رسول اور قرآن شریف کی شان میں بےادبی کے الفاظ منہ سے نکالنے والے بڑے بڑے سرکش مشرکین مکہ میں کے بڑی ذلت سے اس لڑائی میں مارے گئے اور مرتے ہی عذاب آخرت میں گرفتار ہوگئے جس عذاب کے جتلانے کو اللہ کے رسول ﷺ نے ان کی لاشوں پر کھڑے ہو کر یہ فرمایا کہ تم نے اللہ تعالیٰ کے وعدہ کو سچا پا لیا 1 ؎۔ حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان اور انسان کی سب ضروریات کی چیزوں کو اس طرح پیدا کیا کہ اس میں کوئی اس کا شریک نہیں ‘ پھر بلاسبب جو لوگ اللہ تعالیٰ کی تعظیم میں دوسروں کو شریک کرتے ہیں اور قرآن شریف کی نئی نئی آیتوں کی نصیحت سے جب ان کو شرک کی برائی جتلائی جاتی ہے تو قرآن کی اس طرح کی نصیحت کو سن کر اسے مسخراپن میں اڑا دیتے ہیں اور اس میں مشورے کر کے اللہ کے رسول اور اللہ کے کلام کی شان میں طرح طرح کی بےادبی کے لفظ منہ سے نکالتے ہیں ‘ ایسے لوگوں کو ہشیار ہوجانا چاہیے کہ ان کی باتوں اور ان کے کاموں کے حساب و کتاب کا وقت بہت جلدی ان کے سر پر آرہا ہے ‘ یہ لوگ جو کہتے ہیں کہ اللہ کا رسول آدمی نہیں ہوسکتا ‘ فرشتہ ہونا چاہیے اس کا یہ جواب بھی کئی جگہ قرآن میں ان کو سمجھا دیا گیا کہ فرشتہ کو اصلی صورت میں دیکھنا انسان کی طاقت سے باہر ہے اس لیے کوئی فرشتہ بھی اگر اللہ کا رسول ہو کر آتا تو وہ بھی ضرور آدمی کی صورت میں ہوتا ‘ اس واسطے پچھلے سب رسول آدمی تھے۔ عام بنی آدم کی طرح کھانا ‘ پینا ‘ مرنا سب کچھ ان کے پیچھے لگا ہوا تھا ‘ آخر آیت میں قریش کو یہ جتلایا کہ اس قرآن کے تمہاری زبان میں نازل ہونے کے سبب اگر تم سمجھو تو تمہاری بڑی ناموری ہے ‘ معتبر سند سے طبرانی میں روایت ہے جس میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے ذکر کی تفسیر ناموری کو قرار دیا ہے ‘ مطلب یہ ہے کہ اب تو یہ قریش نادانی سے اللہ کے رسول اور قرآن کی شان میں طرح طرح کی بےادبی کے لفظ منہ سے نکالتے ہیں لیکن ان میں سے جو لوگ اللہ کے رسول کو سچا اور قرآن کو اللہ کا کلام جانیں گے ‘ ایک وقت ایسا آنے والا ہے کہ ان کو اور ان کی اولاد کو بڑی ناموری حاصل ہوگی ‘ قرآن کی یہ ایک پیشین گوئی ہے ‘ جس کے ظہور کے انتظام کے لیے اللہ کے رسول ﷺ نے معجزہ کے طور پر صحیح بخاری ومسلم کے عبداللہ بن عمر ؓ وغیرہ کی 2 ؎ روایتوں میں جو فرمایا اس کا حاصل یہ ہے کہ جب بہت سی غیر قومیں دائرہ اسلام میں داخل ہوں گی تو اس وقت سردار سوائے قوم قریش کے اور قوم کا کوئی شخص نہ ہوگا۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی خلافت سے لے کر عباسیہ کی خلافت کے عروج تک قرآن کی اس پیشین گوئی اللہ کے رسول ﷺ کے اس معجزہ کا جو ظہور ہوا 3 ؎ تاریخ الخلفاء کے دیکھنے سے اس کا حاصل اچھی طرح معلوم ہوسکتا ہے، اس مضمون کی آیت سورة الزخرف میں آوے گی۔ اس کو بھی اس آیت کی تفسیر میں دخل ہے حاصل کلام یہ ہے کہ قریش کی اس عزت کا سبب اللہ کے رسول کا اس قوم میں ہونا اور قرآن کا قریش کی زبان میں اترنا ہے۔ 1 ؎ صحیح بخاری ص 522 ج 2۔ باب قتل ابی جہل۔ 2 ؎ مشکوٰۃ باب مناقب قریش۔ 3 ؎ حافظ سیوطی (رح) کی مشہور تالیف اور مصر وہسد میں مطبوع اور مستد اول کتاب ہے (ع۔ ح)
Top