Ahsan-ut-Tafaseer - Al-An'aam : 100
لَهُمْ فِیْهَا زَفِیْرٌ وَّ هُمْ فِیْهَا لَا یَسْمَعُوْنَ
لَهُمْ : ان کے لیے فِيْهَا : وہاں زَفِيْرٌ : چیخ و پکار وَّهُمْ : اور وہ فِيْهَا : اس میں لَا يَسْمَعُوْنَ : (کچھ) نہ سن سکیں گے
وہاں ان کو چلانا ہوگا اور اس میں (کچھ) نہ سن سکیں گے
100۔ 103:۔ اوپر ذکر تھا کہ مشرکوں اور ان کے جھوٹے معبودوں کو ہمیشہ دوزخ میں رہنے کا حکم سنا دیا جائے گا اور قائل کرنے کے لیے ان مشرکوں سے یہ کہا جائے گا کہ دنیا میں جن تبوں کو تم اپنا معبود جانتے تھے اللہ تعالیٰ کے نزدیک اگر ان بتوں میں معبود ہونے کی صلاحیت ہوتی تو آج ان کو دوزخ کا ایندھن نہ بنایا جاتا ‘ ان آیتوں میں فرمایا ‘ دوزخ میں ہمیشہ رہنے کا حکم سن کر یہ لوگ روئیں گے چلاویں گے اور ان میں کا ہر ایک شخص اپنے اپنے عذاب کی تکلیف میں ایسا بدحواس ہوگا کہ ایک شخص دوسرے کے رونے اور چلانے کی آواز بھی نہ سنے گا 1 ؎‘ ترمذی میں ابودرداء ؓ سے اور مستدرک حاکم ‘ بیہقی کی بعث ونشور وغیرہ میں حضرت عبداللہ بن عباس سے جو روایتیں ہیں 2 ؎ ان کا حاصل یہ ہے کہ جب یہ دوزخی لوگ دوزخ کے عذاب کی تکلیف سے بہت گھبرا جاویں گے تو لوگ دوزخ کے داروغہ سے التجا کریں گے کہ مالک ان لوگوں کی موت کی اللہ تعالیٰ سے دعا کرے ہزار برس تک تو ان لوگوں کی التجا کا کچھ جواب نہ ملے گا پھر ہزار برس کے بعد یہ جواب ملے گا کہ دنیا میں تم لوگوں نے اس عذاب کو جھٹلایا اس لیے اب تمہاری یہی سزا ہے کہ تم ہمیشہ اس عذاب میں گرفتار رہو گے اس حکم کو سن کر یہ لوگ اور بھی زیادہ چیخنا اور چلانا شروع کردیں گے۔ حضرت عبداللہ بن عباس کی اس روایت کو حاکم نے صحیح کہا ہے 3 ؎، اور ترمذی کی ابودرداء ؓ کی حدیث کی سند میں قطبۃ بن عبدالعزیز روای کو اگرچہ بعض علماء نے لائق اعتراض قرار دیا ہے لیکن اکثر اہل حدیث نے قطبۃ بن عبد العزیز کو ثقہ کہا ہے 4 ؎، ابن ماجہ میں انس بن مالک سے روایت ہے 5 ؎۔ کہ دوزخ میں دوزخی یہاں تک روئیں گے کہ ان کے آنسوؤں میں کشتی چلاؤ تو چل نکلے اس حدیث کی سند میں ایک روای یزید الرقاشی کو اگرچہ بعض علماء نے قابل اعتراض ٹھہرایا ہے لیکن ابن معین اور ابن عدی نے یزید الرقاشی کو ثقہ قرار دیا ہے 6 ؎، جن لوگوں کا ذکر پہلی آیت میں ہے ان روایتوں سے ان کے رونے اور چلانے کی تفسیر اچھی طرح سمجھ میں آجاتی ہے ‘ مشرکین مکہ جو یہ کہتے تھے کہ اگر ہمارے بت دوزخ کا ایندھن ٹھہریں گے تو فرشتوں کو عزیر (علیہ السلام) اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو بھی لوگ اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں پھر ان کا کیا حاصل ہوگا ‘ اس کے جواب میں فرمایا دوزخ کے پیدا ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں جو لوگ اللہ کی رحمت اور ہمیشہ کی جنت کے عیش کے قابل ٹھہر چکے ہیں ‘ ان کے کانوں میں دوزخ کے شوروغل کی آواز تک بھی نہ جائے گی بلکہ دوسرے صور کے بعد جب سب لوگ قبروں سے اٹھیں گے اور اس دن کی آفتوں کو دیکھ کر گنہگار لوگوں کے دل پر گھبراہٹ چھا جائے گی ‘ ان نیک لوگوں کو اسی وقت اللہ کے نہ رہے گی ‘ مسند امام احمد کے حوالہ سے حضرت عائشہ ؓ کی صحیح حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے کہ منکر نکیر کے سوال جواب کے بعد اللہ کے فرشتے اللہ کے حکم سے نیک لوگوں کو ان کا جنت کا ٹھکانا دکھا کر یہ وعدہ خوشخبری کے طور پر سنا دیتے ہیں کہ اسی ٹھکانے میں ہمیشہ رہنے کے لیے تم کو قیامت کے دن دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔ یہ حدیث آخری آیت کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ قبر میں رکھتے ہی اللہ کے حکم سے فرشتوں نے جو خوشخبری نیک لوگوں کو وعدہ الٰہی کے موافق سنائی تھی قبر سے اٹھتے ہی وہ خوشخبری کا وعدہ ان لوگوں کو اللہ کے فرشتے پھر یاد دلا دیں گے یہ حدیث صحیح بخاری میں بھی انس بن مالک کی روایت سے آئی ہے 7 ؎۔ 1 ؎ الترغیب والترہیب ص 481 ج 4 طبع مصر۔ فصل فی طعام اہل النار۔ 2 ؎ ایضاص 492 فصل فی بکا ہم وشہیقہم 3 ؎ مستدرک حاکم ص 448 ج 2 4 ؎ الترغیب والترہیب ص 482 ج 4 5 ؎ ایضا ص 493 6 ؎ ایضا ص 580 7 ؎ مشکوٰۃ ص 25 باب اثبات عذاب القبر
Top