Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Anbiyaa : 105
وَ لَقَدْ كَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُهَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ
وَلَقَدْ كَتَبْنَا : اور تحقیق ہم نے لکھا فِي الزَّبُوْرِ : زبور میں مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ : نصیحت کے بعد اَنَّ : کہ الْاَرْضَ : زمین يَرِثُهَا : اس کے وارث عِبَادِيَ : میرے بندے الصّٰلِحُوْنَ : نیک (جمع)
اور ہم نے نصیحت (کی کتاب یعنی تورات) کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا کہ میرے نیکو کار بندے ملک کے وارث ہوں گے
105:۔ مجاہد اور سعید بن جبیر کے قول کے موافق حاصل مطلب آیت کا یہ ہے کہ پہلے لوح محفوظ میں اور لوح محفوظ کے بعد انبیاء پر جو کتابیں نازل کی گئی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ نے یہی لکھا ہے کہ جنت کی زمین کے وہی لوگ وارث ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں نیک ٹھہر چکے ہیں ‘ صحیح بخاری میں عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے 1 ؎ کہ بعضے لوگ تمام عمر جنتیوں کے سے کام کرتے ہیں لیکن آخر عمر میں لوح محفوظ کے لکھے کے موافق دورخیوں کے سے کام کر کے مرتے ہیں اسی طرح بعضے لوگ تمام عمر دوزخیوں کے سے کام کرتے ہیں لیکن آخر عمر میں لوح محفوظ کے لکھے کے موافق جنتیوں کے سے کام کر کے مرتے ہیں ان حدیثوں کو آیتوں کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ اگرچہ اللہ تعالیٰ کے علم غیب سے کوئی چیز باہر نہیں ہے اسی واسطے اس نے ہر شخص کے کام کا انجام لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے لیکن انصاف کی نظر سے اللہ تعالیٰ نے جزاو سزا کا دارو مدار اپنے علم غیب پر نہیں رکھا بلکہ ہر شخص کا ایک ٹھکانا دوزخ میں اور ایک جنت میں پیدا کر کے سزا کے طور پر دوزخ میں جھونکے جانے اور جزا کے طور پر جنت میں داخل ہونے کا مدار دنیا کے ظاہری عملوں پر رکھا ہے ہاں اتنی بات ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کے علم غیب سے کوئی چیز باہر نہیں ہے اسی طرح اس کے علم غیب کے برخلاف کچھ نہیں ہوسکتا اس لیے اگرچہ ہر شخص کا ایک ٹھکانا دوزخ میں اور ایک جنت میں پیدا کیا گیا ہے لیکن آخر کو جنت میں وہی لوگ داخل ہوں گے جو اللہ کے علم غیب کے موافق پہلے لوح محفوظ میں اور پھر آسمانی کتابوں میں نیک ٹھہر چکے ہیں اسی واسطے قرآن شریف میں جگہ جگہ فرمایا ہے کہ راہ راست پر آنے کی توفیق ان ہی لوگوں کو ہوگی جو اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں راہ راست پر آنے کے قابل قرار چکے ہیں ‘ حاصل کلام یہ ہے کہ دنیا میں پیدا ہو کر اپنے اختیار سے جو کوئی جس طرح کے کام کرنے والا تھا۔ لوح محفوظ میں وہ لکھا گیا ہے ‘ کسی کو کسی کام پر مجبور نہیں کیا گیا۔ (1 ؎ مشکوٰۃ ص 20 باب الایمان بالقدر۔ )
Top