Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Anbiyaa : 19
وَ لَهٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ مَنْ عِنْدَهٗ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِهٖ وَ لَا یَسْتَحْسِرُوْنَۚ
وَ لَهٗ : اور اسی کے لیے مَنْ : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَالْاَرْضِ : اور زمین میں وَ مَنْ : اور جو عِنْدَهٗ : اس کے پاس لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ : وہ تکبر (سرکشی) نہیں کرتے عَنْ : سے عِبَادَتِهٖ : اس کی عبادت وَ : اور لَا يَسْتَحْسِرُوْنَ : نہ وہ تھکتے ہیں
اور جو لوگ آسمانوں میں اور زمین میں ہیں سب اسی کے (مملوک اور اسی کے مال) ہیں۔ اور جو (فرشتے) اس کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے نہ کتراتے ہیں اور نہ اکتاتے ہیں
19۔ 21:۔ حاصل مطلب یہ ہے کہ آسمان پر کے فرشتے ‘ زمین پر کے جنات اور انسان سب اللہ کے غلام ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کا مالک ہے پھر کوئی باپ اپنی اولاد کو غلام بنا کر رکھتا ہے جو اللہ کی اولاد تھی اور اس نے اس کو غلام بنا کر رکھا جن فرشتوں کو یہ مشرک اللہ کی بیٹیاں کہتے ہیں ان فرشتوں کا یہ حال ہے کہ اللہ کی عظمت کے آگے وہ بالکل ناچیز اور ہر وقت اس کی عبادت میں لگے رہتے ہیں کیا باپ کے آگے اولاد کی یہ شان ہوتی ہے جو اللہ کی عظمت کے آگے فرشتوں کی ہے پھر فرمایا کہ اللہ کی تو وہ قدرت ہے کہ انسان ناپید تھا ‘ اللہ نے اپنی قدرت سے اس کو پیدا کردیا۔ مٹی کی بےجان چیزوں پتھر لکڑی وغیرہ کے بت جو ان مشرکوں نے بنائے ہیں ‘ کیا ان میں یہ طاقت ہے کہ وہ کسی مردہ کو زندہ کرسکتے ہیں وہ تو خود بےجان ہیں کیا خاک کسی مردہ کو زندہ کریں گے ‘ مکہ کے قحط کے وقت ان سے تو اتنا بھی نہ ہوا کہ مینہ برسا کر اپنے پجاریوں کو قحط کی تکلیف سے بچا لیتے ‘ آخر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی برکت سے مینہ بر سایا ‘ تب وہ قحط رفع ہوا ‘ حاصل کلام یہ ہے کہ ایسی بےجان بےاختیار اور لکڑی کی مورتوں کو معبود ٹھہرانا کسی عقل مند آدمی کا کام نہیں ہے ‘ رہی یہ بات کہ جن اچھے لوگوں کی یہ مورتیں ہیں ‘ وقت پر وہ اچھے لوگ اپنی مورتوں کے پوجنے والوں کی مدد کریں گے ‘ اول تو مکہ کے قحط کے وقت ان کی مدد کی قلعی کھل گئی ‘ دوسرے ان مشرکوں کو یہ سمجھا دیا گیا ہے کہ مدد تو درکنار وہ اچھے لوگ ان مشرکوں کی صورت سے بالکل بیزار ہیں ‘ مکہ کے قحط کا قصہ صحیح 1 ؎ بخاری وغیرہ کی عبداللہ ؓ بن مسعود کی روایت سے کئی جگہ گزر چکا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جب مشرکین مکہ نے بہت سرکشی شروع کی تو اللہ کے رسول ﷺ نے ان لوگوں پر قحط کی بلا آنے کی بددعا کی اور اس بددعا کے اثر سے مکہ میں ایسا قحط پڑا کہ ان مشرکوں کی ساری سرکشی نکل گئی اور فاقوں کے مارے نہ کھانے کی چیزیں۔ اس قحط کے زمانہ میں ان مشرکوں نے اپنے بتوں سے مینہ برسانے کی بہت اتجا کی اور اللہ کے رسول کی دعا سے مینہ برسا۔ صحیح 2 ؎ بخاری ومسلم کے حوالہ سے حضرت علی ؓ کی حدیث کئی دفعہ گزر چکی ہے کہ دنیا کے پیدا کرنے سے پہلے اپنے علم غیب کے نتیجہ کے طور پر اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں یہ لکھ لیا ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے کے بعد کون شخص دوزخ میں جھونکے جانے کے قابل کام کرے گا اور کون شخص جنت میں جانے کے قابل ‘ اب جس کے قابل لوگ پیدا ہوئے ‘ ان کو ویسے ہی کام آسان اور اچھے معلوم ہوتے ہیں ‘ اس حدیث سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے کہ مشرکین مکہ میں سے اللہ تعالیٰ کے علم غیب کے موافق جو لوگ دوزخی ٹھہر چکے ہیں وہ مکہ کے قحط میں بتوں کی اتنی بڑی عاجزی اور اللہ تعالیٰ کی اتنی بڑی قدرت دیکھنے کے بعد بھی ان ہی بےجان عاجز پتھر کی مورتوں کو پوجتے رہے اور آخر اسی حال میں دنیا سے اٹھ گئے۔ (1 ؎ کتاب التفسیر۔ سورة الدخان ) (2 ؎ مشکوٰۃ باب الایمان بالقدر )
Top