Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Anbiyaa : 34
وَ مَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ١ؕ اَفَاۡئِنْ مِّتَّ فَهُمُ الْخٰلِدُوْنَ
وَ : اور مَا جَعَلْنَا : ہم نے نہیں کیا لِبَشَرٍ : کہ بشر کے لیے مِّنْ قَبْلِكَ : آپ سے قبل الْخُلْدَ : ہمیشہ رہنا اَفَا۟ئِنْ : کیا پس اگر مِّتَّ : آپ نے انتقال کرلیا فَهُمُ : پس وہ الْخٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
اور (اے پیغمبر) ہم نے تم سے پہلے کسی آدمی کو بقائے دوام نہیں بخشا بھلا اگر تم مرجاؤ تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟
34۔ 35:۔ سورة یونس میں گزر چکا ہے 1 ؎ کہ جب اللہ کے رسول ﷺ مشرکین مکہ کو قرآن شریف کی وہ آیتیں سناتے تھے ‘ جن میں ان کے بتوں کی مذمت ہوتی تھی تو ان میں کے بڑے بڑے سرکش اللہ کے رسول ﷺ سے کہتے تھے کہ اگر تم کو ہمیں قرآن سنانا منظور ہے تو اس میں سے ہمارے بتوں کی مذمت کا ذکر بدل ڈالو ‘ مشرکین مکہ اللہ کے رسول ﷺ سے یہ بھی کہا کرتے تھے کہ برس دن تک تم ہمارے بتوں کی پوجا کرو اور ہم برس دن تک تمہارے خدا کی عبادت کریں گے۔ پھر اس صورت میں ہمار تمہارا کوئی جھگڑا باقی نہ رہے گا ‘ یہ ذکر تفصیل سے سورة الزمر میں آتا ہے ‘ حاصل کلام یہ ہے کہ جب مشرکین مکہ کی یہ باتیں کچھ کارگر نہ ہوئی تو یہ لوگ اللہ کے رسول کو کو ستے اور آپ کی وفات کی تمنا کرتے تھے اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے رسول اللہ کے اللہ تعالیٰ کا یہ انتظام تو تم سے پہلے کا ہے کہ کوئی بشر دنیا میں رہنے والا نہیں اس انتظام کے موافق اگر تم دنیا میں نہ رہے تو ایک دن یہ لوگ بھی نہ رہیں گے کیونکہ موت کا مزہ ہر شخص کو چکھنا ضرور ہے پھر اپنی دنیا کی خوش حالی کے نشہ میں یہ لوگ اپنی موت سے جو غافل ہیں ‘ یہ ان کی نادانی ہے ‘ دنیا کی خوشحالی اور تنگدستی تو اللہ تعالیٰ نے اس آزمائش کے لیے پیدا کی ہے کہ خوشحالی کی حالت میں کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کرتا ہے اور کون ناشکری ‘ اسی طرح تنگدستی کی حالت میں کون صبر کرتا ہے اور کون بےصبری ‘ پھر ایک دن سب اللہ تعالیٰ کے روبرو حاضر ہونے والے ہیں اس وقت ہر شخص کے عملوں کے موافق جزا و سزا کا فیصلہ ہوگا ‘ صحیح مسلم کے حوالہ 2 ؎ سے صہیب ؓ رومی کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے ‘ جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ‘ خوشحالی کے وقت شکر اور تنگدستی کے وقت صبر ان لوگوں کا کام ہے جو پکے ایماندار ہیں ‘ اس حدیث کو آیتوں کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ خوشحالی اور تنگدستی دنیا میں آزمائش کی چیزیں ہیں اور آزمائش میں وہی لوگ پورے اترتے ہیں جو پکے ایماندار ہیں ‘ اللہ کے رسول کی وفات کا انتظار کرنے والوں میں سے بڑے بڑے سرکش بدر کی لڑائی میں ختم ہوگئے ‘ جس کا قصہ صحیح بخاری ومسلم کی انس ؓ بن مالک کی روایت کے حوالہ سے کئی جگہ گزر چکا ہے اور جن بتوں کی حمایت میں یہ لوگ اللہ کے رسول کی وفات کا انتظار کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے ہاتھ سے ان بتوں کو جس قدر ذلیل کرایا ‘ صحیح بخاری کی عبداللہ ؓ بن مسعود 3 ؎ اور صحیح مسلم کی ابوہریرہ ؓ 4 ؎ کی روایتوں کے حوالہ سے یہ قصہ بھی کئی جگہ گزر چکا ہے کہ فتح مکہ کے وقت اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے ہاتھ کی لکڑی مار مار کر ان بتوں کو زمین میں پھینک دیا اور کس مشرک سے ان بتوں کی کچھ حمایت نہ ہوسکی۔ (1 ؎ ص 18‘ 19 جلد 3 ) (2 ؎ مشکوٰۃ باب التوکل والصبر ) (3 ؎ صحیح بخاری ابواب فتح مکہ ) (4 ؎) صحیح مسلم ص 103 ج 2
Top