Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Anbiyaa : 36
وَ اِذَا رَاٰكَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ یَّتَّخِذُوْنَكَ اِلَّا هُزُوًا١ؕ اَهٰذَا الَّذِیْ یَذْكُرُ اٰلِهَتَكُمْ١ۚ وَ هُمْ بِذِكْرِ الرَّحْمٰنِ هُمْ كٰفِرُوْنَ
وَاِذَا : اور جب رَاٰكَ : تمہیں دیکھتے ہیں الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا : وہ جنہوں نے کفر کیا (کافر) اِنْ : نہیں يَّتَّخِذُوْنَكَ : ٹھہراتے تمہیں اِلَّا : مگر۔ صرف هُزُوًا : ایک ہنسی مذاق اَھٰذَا : کیا یہ ہے الَّذِيْ : وہ جو يَذْكُرُ : یاد کرتا ہے اٰلِهَتَكُمْ : تمہارے معبود وَهُمْ : اور وہ بِذِكْرِ : ذکر سے الرَّحْمٰنِ : رحمن (اللہ) هُمْ : وہ كٰفِرُوْنَ : منکر (جمع)
اور جب کافر تم کو دیکھتے ہیں تو تم سے استہزاء کرتے ہیں کہ کیا یہی شخص ہے جو تمہارے معبودوں کا ذکر (برائی سے) کیا کرتا ہے ؟ حالانکہ وہ خود رحمن کے نام سے منکر ہیں
36۔ 41:۔ تفسیر سدی اور تفسیر ابن ابی حاتم 4 ؎ میں چند روایتوں سے جو شان نزول ان آیتوں کی بیان کی گئی ہے ‘ اس کا حاصل یہ ہے کہ قرآن شریف میں مشرکوں کے بتوں کی مذمت کی آیتیں جو نازل ہوتی تھیں اور آنحضرت ﷺ وہ آیتیں مشرکوں کو پڑھ کر سناتے تھے تو مشرک لوگ اپنے بتوں کی مذمت سن کر دل میں تو بہت چڑتے اور برا مانتے تھے اور ظاہر میں آنحضرت ﷺ کو مسخراپن میں اڑاتے تھے ‘ چلتے پھرتے جہاں کہیں آنحضرت ﷺ کو دیکھتے تو ابوجہل وغیرہ آپس میں آنحضرت ﷺ کو چھیڑنے کو کہتے تھے ‘ کیا قریش کی ہدایت کو یہی نبی آئے ہیں جو ہمارے معبودوں کو برا کہتے ہیں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں اور فرما دیا کہ جو عذاب ان مشرکوں کے لیے آخرت میں تیار کیا گیا ہے ‘ اگر اس کو یہ لوگ جان لیویں تو یہ مسخراپن کی سب باتیں بھول جاویں اور یہ بھی فرما دیا کہ دنیا چند روزہ ہے ‘ آنکھوں کے سامنے ان کے بڑے مرگئے ان کو بھی اسی طرح آخر مرنا ہے مرتے ہی اس طرح کے ناگہانی عذاب میں یہ لوگ پھنس جاویں گے کہ پھر ان کا کچھ بس نہ چلے گا۔ قرآن کی آیتوں اور صحیح حدیثوں سے یہ ذکر اللہ تعالیٰ نے اس واسطے فرمایا ہے کہ ایسے لوگوں کے منہ اور پشت پر قبض روح کے وقت فرشتے دنیا میں ہی کوڑے مارتے ہیں ‘ جس کا ذکر سورة محمد میں آوے گا۔ اس لیے سب سے پہلے جو عذاب شروع ہوگا ‘ اس کا ذکر ان آیتوں میں فرمایا گیا ہے حاصل مطلب ان پوری آیتوں کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول ﷺ سے فرماتا ہے ‘ اے رسول اللہ کہ اللہ تعالیٰ کو خوب معلوم ہے کہ یہ مشرک لوگ جب تم کو دیکھتے ہیں تو مسخراپن کے طور پر آپس میں چرچا کرتے ہیں کہ ہمارے ٹھاکروں کی مذمت کرنے والے یہ جارہے ہیں ‘ عربی زبان میں ذکر کا لفظ مذمت اور تعریف دونوں موقعوں پر بولا جاتا ہے ‘ اگر یہ لفظ دوست کے منہ سے نکلے تو تعریف کا موقعہ ہوتا ہے ‘ نہیں تو مذمت کا ‘ پھر فرمایا یہ لوگ پتھر کے بتوں کا نام تو تعریف سے لینے کی خواہش دل میں رکھتے ہیں اور اللہ کی رحمت کی صفت کے سبب سے اس کا نام رحمن جو قرار پایا ہے ‘ ان کی سراپا نادانی ہے کیونکہ یہ بت جن نیک لوگوں کی شکلوں کی یہ مورتیں ہیں ‘ وہ لوگ تو ان مشرکوں کی صورتوں سے بیزار ہیں اور بت تو پھر آخر پتھر کی مورتیں ہیں جن میں نہ کسی کو نفع پہنچانے کی قدرت ہے نہ ضرر پہنچانے کی ‘ پھر ان کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرانا قابل مذمت کام نہیں ‘ تو اس کے قابل تعریف ہونے کی کیا سند ان لوگوں کے پاس ہے ‘ صحیح بخاری کے حوالہ سے عبداللہ ؓ بن مسعود کی ‘ اور صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی روایتیں کئی جگہ گزر چکی ہیں ‘ جن کا حاصل یہ ہے کہ فتح مکہ کے وقت اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے ہاتھ کی لکڑی مار مار مکہ کے سب بتوں کو زمین میں گرا دیا ‘ ان روایتوں کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جن کا حاصل یہ ہے کہ مشرکین مکہ اپنے جن بتوں کی عزت بڑھانے کے لیے اللہ کے رسول ﷺ سے وہ مسخراپن کرتے تھے جن کا ذکر آیتوں میں ہے ‘ اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلہ میں اپنے رسول کے ہاتھ سے ان بتوں کو خوب ذلت دلوائی ‘ مشرکین مکہ مسیلمہ کذاب کو رحمن کہتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے اس نام کے منکر تھے ‘ صحیح بخاری 1 ؎ وغیرہ میں صلح حدیبیہ کے قصہ میں چند روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ جب اللہ کے رسول ﷺ نے صلح نامہ کے شروع میں حضرت علی ؓ سے بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھنے کو کہا تو مشرکین مکہ نے صلح نامہ کے لکھے جانے سے انکار کیا اور کہنے لگے کہ رحمن کو ہم نہیں جانتے صلح نامہ کے شروع میں قدیم کے مطابق باسمک اللھم لکھا جائے آخر مشرکین کی ضد کے سبب سے باسمک اللھم صلح نامہ کے شروع میں لکھا گیا ‘ اس حدیث سے وھم بذ کر الرحمن ھم کفرون کی تفسیر اچھی طرح سمجھ میں آجاتی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ مشرکین مکہ اللہ تعالیٰ کا نام رحمن ہونے کے سخت منکر تھے ‘ معتبر سند سے مسند سعید بن منصور ‘ تفسیر ابن المنذر ‘ تفسیر سدی وغیرہ 2 ؎ میں سعید بن جبیر اور عکرمہ کا قول ہے کہ جب آدم (علیہ السلام) کے پتلے میں روح پھونکی گئی تو پیروں میں جان پڑجانے سے پہلے آدم (علیہ السلام) نے کھڑے ہونے کا قصد کیا اور گر پڑے اس قول سے خلق الانسان من عجل کی تفسیر اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ہر کام میں جلدی اور شتابی کرنا انسان کے خمیر میں پڑا ہوا ہے ‘ آگے فرمایا ‘ انسان کے خمیر میں ہر ایک کام میں جلدی کا کرنا جو پڑا ہوا ہے اس کے موافق یہ لوگ عذاب کی جلدی جو کرتے ہیں اور گھڑی گھڑی جو کہتے ہیں کہ جس عذاب سے ڈرایا جاتا ہے آخر وہ عذاب کب آوے گا ‘ اے رسول اللہ کے ان جلد بازوں سے کہہ دیا جائے کہ عذاب کی جلدی کیوں کرتے ہو ‘ بہت جلد اللہ تعالیٰ عذاب کی گھڑی بھی تم کو دکھادے گا ‘ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے انس بن مالک کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے کہ مشرکین مکہ میں سے بڑے بڑے عذاب کی جلدی کرنے والے بدر کی لڑائی کے وقت دنیا میں بڑی ذلت سے مارے گئے اور مرتے ہی عذاب آخرت میں گرفتار ہوگئے جس عذاب کے جتلانے کے لیے اللہ کے رسول ﷺ نے ان لوگوں کی لاشوں پر کھڑے ہو کر فرمایا۔ اب تو تم لوگوں نے اللہ کے وعدہ کو سچا پالیا ‘ عذاب کے جلدی کرنے والوں کو عذاب کی گھڑی کے دکھانے کا جو وعدہ آیتوں میں تھا اس وعدہ کا ظہور اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے آگے فرمایا اگر ان لوگوں کو اس دن کا حال کھل جائے جس دن یہ لوگ اپنے منہ اور اپنی پیٹھ کو آگ کے صدمہ سے نہ خود بچا سکیں گے ‘ نہ کوئی دوسرا ان کی مدد کرکے ان کو اس آگ سے بچا سکے گا اور نہ کہیں بھاگ کر یہ لوگ اس عذاب کو ٹال سکیں گے کیونکہ وہ عذاب ایسی بیخبر ی میں آوے گا کہ ان کو بھاگنے کی مہلت بھی نہ مل سکے گی ‘ سورة محمد میں آوے گا کہ اللہ کے فرشتے نافرمان لوگوں کی روح قبض کرنے کے وقت ایسے لوگوں کے منہ اور ان کی پیٹھ پر لوہے کی گرم موگریاں مارتے ہیں ‘ مسند امام احمد اور ابو داؤد میں براء بن العازب کی صحیح روایت ہے ‘ اس میں بھی نافرمان لوگوں کی روح قبض کرنے کے وقت سختی کرنے کا ذکر ہے اس سختی کا مطلب بھی وہی ہے جو سورة محمد کی آیتوں کا اوپر بیان کیا گیا کہ نافرمان لوگوں کی روح قبض کرنے کے وقت فرشتے ایسے لوگوں کے منہ اور ان کی پیٹھ پر طرح طرح کی مار دھاڑ کرتے ہیں ‘ حاصل کلام یہ ہے کہ ان آیتوں میں فضل منہ اور پیٹھ پر عذاب کے ہونے کا جو ذکر ہے ‘ سورة محمد کی آیتوں اور براء بن العازب کی حدیث سے اس کا مطلب سمجھ میں آجاتا ہے کہ یہ عذاب نافرمان لوگوں کی قبض روح کے وقت کا ہے۔ موت اور قیامت کے وقت کی کسی کو خبر نہیں ‘ اسی واسطے موت اور قیامت کے عذاب کو بیخبر ی کے وقت کا عذاب فرمایا ‘ آخر آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی یہ تسکین فرمائی ہے کہ منکر شریعت لوگ اسی طرح قدیم سے اللہ کے رسولوں سے مسخراپن کرتے رہے ہیں تمہارے ساتھ ہی کچھ یہ بات نہیں ہے اور یہ بھی فرمایا کہ انجام ان کے مسخراپن کا یہ ہوا کہ دنیا میں طرح طرح کے عذابوں سے ہلاک ہوئے اور آخرت کے عذاب میں جدا پکڑے جاویں گے مطلب یہ ہے کہ مشرکین مکہ میں سے جو لوگ ان پچھلے لوگوں کے قدم بقدم چلیں گے۔ یہی انجام ان کا بھی ہوگا ‘ اللہ سچا ہے ‘ اللہ کا کلام سچا ہے اس انجام کا ذکر انس بن مالک کی صحیح بخاری ومسلم کی روایت سے ابھی اوپر گزر چکا ہے۔ (4 ؎ تفسیر الدر المنثورص 319 ج 4 ) (1 ؎ صحیح بخاری ص 389 جلد اول کتاب الشروط ) (2 ؎ تفسیر الدر المنثور ص 319 )
Top