Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Anbiyaa : 51
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَاۤ اِبْرٰهِیْمَ رُشْدَهٗ مِنْ قَبْلُ وَ كُنَّا بِهٖ عٰلِمِیْنَۚ
وَ : اور لَقَدْ اٰتَيْنَآ : تحقیق البتہ ہم نے دی اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم رُشْدَهٗ : ہدایت یابی (فہم سلیم) مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل وَكُنَّا : اور ہم تھے بِهٖ : اس کے عٰلِمِيْنَ : جاننے والے
اور ہم نے ابراہیم کو پہلے ہی سے ہدایت دی تھی اور ہم ان کے حال سے واقف تھے۔
51۔ 56:۔ سورة الانعام میں گزر چکا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی پیدائش نمرود بن کنعان عراق کے بادشاہ کے زمانہ میں ہوئی ہے مکہ کے مشرک لوگ اپنے آپ کو ابراہیم (علیہ السلام) کے طریقہ پر بتلاتے تھے اس واسطے ان لوگوں کو موسیٰ (علیہ السلام) کے تذکرہ سے قائل کرنے کے بعد ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ بیان فرما کر انہیں یوں قائل کیا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) تو بچپنے ہی میں بت پرستی سے بیزار تھے پھر یہ مکہ کے بت پرست اپنے آپ کو ابراہیم (علیہ السلام) کے طریقہ پر کیوں کر کہہ سکتے ہیں ‘ نمردو اور اس کے ساتھی ستارہ پرست لوگ تھے ستاروں کی پرستش کی نیت سے ان لوگوں نے ستاروں کی مورتیں بنار کھی تھیں جن کو ابرہیم (علیہ السلام) نے تماثیل کہا ہے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوسعید خدری کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے کہ جس شخص کے دل میں ذرہ بھر بھی ایمان ہے وہ آخر کو دوزخ سے نکل کر جنت میں جائے گا ‘ معتبر سند سے ابن ماجہ اور صحیح ابن خزیمہ میں ابوہریرہ ؓ کی روایت 1 ؎ سے حدیث قدسی ہے کہ مشرک کا کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول نہیں ‘ اللہ کی وحدانیت کے اعتقاد کو نیک راہ اور شرک کے اعتقاد کو صریح غلطی جو فرمایا ‘ اس کا مطلب ان حدیثوں سے اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے ‘ حاصل مطلب یہ ہے کہ موسیٰ اور ہارون کو نیک راہ کی توفیق سے پہلے اللہ تعالیٰ نے چھوٹی سی عمر میں ابراہیم (علیہ السلام) کو نیک راہ کی توفیق دی کیونکہ اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں یہ بات ٹھہر چکی ہے کہ آزر بت پرست کے گھرانہ میں ابراہیم (علیہ السلام) ایسے نیک راہ اور اللہ کے رسول ہوں گے ‘ ان کے بعد ان کے گھرانہ میں قیامت تک نبوت چلے گی ‘ آگے ابراہیم (علیہ السلام) کے نیک راہ پر ہونے کی یہ تفصیل بیان فرمائی کہ وہ اپنے باپ اور اپنی قوم کو بت پرستی کی حالت پر نہ دیکھ سکے اس لیے انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم کے لوگوں سے پوچھا کہ تم ان مورتیوں کی پوجا میں ہر وقت کیوں لگے رہتے ہو ‘ ابراہیم (علیہ السلام) کے باپ اور قوم کے لوگوں نے جواب دیا کہ ہم اپنے باپ دادا کے طریقہ پر ہیں ‘ وہ بھی یہی کیا کرتے تھے جو ہم کرتے ہیں ‘ ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب دیا اپنے ہاتھ کی بنائی ہوئی مورتوں کی اس قدر تعظیم کرنے میں تم بھی بڑی غلطی میں پڑے ہوئے ہو اور تمہارے باپ دادا بھی غلطی پر تھے ‘ ابراہیم (علیہ السلام) کی یہ بات سن کر ان کے باپ اور ان کی قوم کے لوگوں نے ابراہیم (علیہ السلام) سے کہا کہ جب تم ہم کو اور ہمارے بڑوں کو غلطی پر بتاتے ہو تو تم ہمارے طریقہ سے بڑھ کر کوئی ٹھیک طریقہ بتلا سکتے ہو یا بچوں کی طرح جو منہ میں آتا ہے کہہ رہے ہو ‘ ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا جو منہ میں آوے وہ میں نہیں کہتا بلکہ میں تو تم کو ٹھیک طریقہ بتلا سکتا ہوں کہ جس اللہ نے آسمان زمین سب کچھ پیدا کیا ‘ انسان پر اس کی تعظیم واجب ہے ان مورتوں نے تعظیم کے قابل کونسا کام کیا ہے جو تم ان کی تعظیم میں ہر وقت لگے رہتے ہو اس کے پیدا کیے ہوئے آسمان و زمین اور میں سب اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ تعظیم کے قابل وہی ایک ذات ہے جس نے سب کچھ پیدا کیا۔ (1 ؎ الترغیب والترہیب ص 69 ج 1 باب الترہیب من الریاء )
Top