Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Anbiyaa : 64
فَرَجَعُوْۤا اِلٰۤى اَنْفُسِهِمْ فَقَالُوْۤا اِنَّكُمْ اَنْتُمُ الظّٰلِمُوْنَۙ
فَرَجَعُوْٓا : پس وہ لوٹے (سوچ میں پڑھ گئے) اِلٰٓى : طرف۔ میں اَنْفُسِهِمْ : اپنے دل فَقَالُوْٓا : پھر انہوں نے کہا اِنَّكُمْ : بیشک تم اَنْتُمُ : تم ہی الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع)
انہوں نے اپنے دل میں غور کیا تو آپس میں کہنے لگے بیشک تم ہی بےانصاف ہو
64۔ 67:۔ جب ابراہیم (علیہ السلام) نے قوم کے لوگوں کو یہ کہہ کر چپ کرا دیا کہ ان چھوٹے بتوں سے تو یہ پوچھا جائے کہ ان کو کس نے توڑا ہے اور بڑے بت سے یہ پوچھ لیا جائے کہ اس نے چھوٹے بتوں کو کیوں توڑا ہے تو قوم کے لوگوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کی اس بات کو اپنے دل میں سوچا اور آپس میں ایک نے دوسرے کی طرف دیکھ کر یہ کہا کہ بغیر دیکھے ابراہیم (علیہ السلام) کو بتوں کے توڑنے کا الزام لگانا حقیقت میں ایک زیادتی اور بےانصافی کی بات ہے پھر گردن جھکا کر شرمندگی سے کہنے لگے ابراہیم تم کو کیا معلوم نہیں کہ یہ پتھر کے بت منہ سے نہیں بولتے ‘ قوم کے لوگوں سے یہ بات سن کر ابراہیم (علیہ السلام) نے ان سے کہا کہ تمہارے بت جب ایسے عاجز اور بےبس ہیں کہ جس نے ان کو صدمہ پہنچایا اس کا مقابلہ نہ کرسکے اور تمہارے پوچھنے پر یہ بھی نہیں بتلا سکتے کہ کس شخص نے ان کو صدمہ پہنچایا تو پھر تم کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ تم اور تمہارے بت دونوں بیزاری کے قابل ہیں کیونکہ یہ بت اپنی پوجا کرنے والوں کے ساتھ نہ کچھ بھلائی کرسکتے ہیں نہ پوجا کے چھوڑ دینے والوں کے ساتھ کچھ برائی ‘ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے حضرت علی ؓ کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم غیب کے موافق جو لوگ دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے دوزحی قرار پاچکے ہیں ان کو دنیا میں پیدا ہونے کے بعد ویسے ہی کام اچھے اور آسان معلوم ہوتے ہیں ‘ اس حدیث کو آیتوں کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی نصیحت سے قوم کے لوگ اگرچہ بت پرستی کی برائی کو سمجھ گئے تھے لیکن اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں وہ لوگ دوزخی ٹھہر چکے تھے اس لیے بجائے اس کے کہ وہ لوگ ابراہیم (علیہ السلام) کی نصیحت کی کچھ قدر کرتے انہوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ وہ بدسلوکی کی جس کا ذکر آگے آتا ہے۔
Top