Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Anbiyaa : 85
وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِ١ؕ كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ
وَاِسْمٰعِيْلَ : اور اسمعیل وَاِدْرِيْسَ : اور ادریس وَذَا الْكِفْلِ : اور ذوالکفل كُلٌّ : یہ سب مِّنَ : سے الصّٰبِرِيْنَ : صبر کرنے والے
اور اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل کو (بھی یاد کرو) یہ سب صبر کرنے والے تھے
85۔ 86:۔ صحیح بخاری 1 ؎ میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی ایک بہت بڑی حدیث ہے جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) مکہ ؓ کے میدان میں جب ہاجرہ (علیہا السلام) اور دودھ پیتے بچے اسمعیل (علیہ السلام) کو چھوڑ گئے تو ان کو ایک مشک پانی کی بھری ہوئی دے گئے تھے ‘ جب اس مشک کا پانی ختم ہوچکا اور ہاجرہ (علیہا السلام) پیاس سے بہت پریشان ہوئی تو اللہ کے حکم سے جبرئیل (علیہ السلام) نے زمزم کے مقام پر اپنا پر مارا جس سے یہ زمزم کا چشمہ نکلا اور اس پانی کے سبب سے جرہم بن قحطان کے قبیلہ کے لوگ اس مکہ کے میدان میں آباد ہوئے اور جوان ہوجانے کے بعد اس قبیلہ کی ایک عورت سے اسمعیل (علیہ السلام) کا نکاح ہوا ‘ اس قبیلہ جرہم کے اسمعیل نبی تھے اور جرہم قبیلہ کے زمانہ تک مکہ میں ملت ابراہمی ( علیہ السلام) کو پوری پابندی جاری تھی ‘ قوم جرہم کے زمانہ کے بعد جب قوم خزاعہ کے حوالہ میں بیت اللہ آیا تو قوم خزاعہ کے سردار ایک شخص عمر وبن لحی نے پہلے پہل ملت ابراہمی کو مٹایا اور جدہ سے بت لاکر مکہ میں رکھے اور بت پرستی پھیلائی ‘ چناچہ صحیح بخاری کی ابوہریرہ ؓ کی روایت سے اور مسند امام احمد وغیرہ کی اور رواتیوں سے یہ قصہ سورة المائدہ میں گزر چکا ہے۔ قریش جو یہ کہتے تھے کہ بت پرستی ہمارے بڑوں کا طریقہ ہے قریش کی اس بات کو جھٹلانے کے لیے اسمعیل (علیہ السلام) کے قصہ سے قریش کو یوں قائل کیا گیا ہے کہ یہ لوگ اپنے آپ کو بنی اسمعیل کہتے ہیں مگر ان کو یہ خبر نہیں کہ عمرو بن لحی کے پہلے ان کے بڑوں کے بڑے اسمعیل گزرے ہیں ان کا یہ طریقہ ہرگز نہیں تھا ان لوگوں کی یہ بڑی نادانی ہے کہ اپنے اصل بڑوں کے طریقہ کو چھوڑ کر عمروبن لحی کے طریقہ پر جمے ہوئے ہیں ‘ صحیح بخاری میں امام بخاری (رح) نے بغیر سند کے عبداللہ بن مسعود اور عبداللہ بن عباس ؓ کا یہ قول جو بیان کیا ہے کہ الیاس اور ادریس ایک ہی پیغمبر کا نام ہے اس میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے قول کی سند تو ضعیف ہے 2 ؎ اور عبداللہ بن مسعود کے قول کی سند تفسیر بن ابی حاتم 3 ؎ میں اگرچہ معتبر ہے ‘ لیکن یہ قول ابوذر ؓ کی حدیث کے مخالف ہے ‘ جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ‘ ادریس (علیہ السلام) نے پہلے پہل قلم سے لکھنا دنیا میں جاری کیا کیونکہ الیاس ( علیہ السلام) انبیائے بنی اسرائیل میں سے ہیں اور قلم سے لکھنا بنی اسرائیل سے پہلے دنیا میں جاری تھا ‘ چناچہ یعقوب (علیہ السلام) نے یوسف (علیہ السلام) کو جو خط لکھا ہے اس کا ذکر اکثر مفسروں نے اپنی تفسیروں میں کیا ہے ‘ اس واسطے یہی قول صحیح معلوم ہوتا ہے کہ ادریس (علیہ السلام) نوح (علیہ السلام) سے پہلے ہیں ‘ ادریس (علیہ السلام) کا قصہ سورة مریم میں گزر چکا ہے۔ ابوذر ؓ کی اوپر کی حدیث کو ابن حبان نے صحیح کہا ہے 4 ؎‘ صحیح بخاری ومسلم کی مالک بن صعصعہ کی روایت 5 ؎ کے اور صحیح مسلم کی انس بن مالک کی روایت 6 ؎ کے موافق صحیح قول یہی ہے کہ معراج کے وقت اللہ کے رسول ﷺ اور ادریس (علیہ السلام) کی ملاقات چوتھے آسمان پر ہوئی ہے ‘ ذوالکفل کے نبی ہونے اور نہ ہونے میں صحابہ ؓ کے زمانہ سے اختلاف چلا آتا ہے چناچہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ اسی بات کے قائل ہیں کہ ذوالکفل نبی نہیں تھے 7 ؎ اور ابو موسیٰ اشعری ؓ منبر 8 ؎ پر وعظ کی طرح بیان کیا کرتے تھے کہ بنی اسرائیل میں ذوالکفل ایک نیک شخص تھے ‘ نبی نہیں تھے ‘ مسند امام احمد میں عبداللہ بن عمر ؓ سے ایک روایت ہے 9 ؎ جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا۔ بنی اسرائیل میں الکفل نام کا ایک شخص بڑا گنہگار تھا ‘ اس نے ایک عورت کو ساٹھ اشرفیاں بدکاری کے وعدہ پر دیں اور جب اس نے اس عورت سے بدکاری کا ارادہ کیا تو وہ عورت رونے لگی ‘ الکفل نے اس عورت سے رونے کا سبب پوچھا تو اس عورت نے کہا۔ میں نے ایسا برا کام کبھی عمر بھر نہیں کیا ‘ تنگ دستی نے مجھے اس کام کے وعدہ پر مجبور کردیا ہے۔ الکفل نے عورت کی یہ بات سن کر اس کو رخصت کیا اور ساٹھ اشرفیاں بھی اس کے پاس چھوڑ دیں اور عہد کرلیا کہ آئندہ وہ عمر بھر کوئی گناہ نہ کرے گا ‘ اس عہد کی ہی رات کو الکفل کا انتقال ہوگیا اور صبح کو اس کے دروازے پر یہ لکھا ہوا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے الکفل کی مغفرت فرما دی ‘ حافظ ابن کثیر (رح) نے مسندامام احمد کے حوالہ سے اس حدیث کو اپنی تفسیر میں نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ صحاح ستہ کے کسی مصنف نے اپنی کتاب میں اس حدیث کو نہیں لیا ‘ ترمذی کے ابواب 10 ؎ زہد میں یہ حدیث موجود ہے اور قصہ بھی پورا وہی ہے جو مسند امام احمد میں ہے اور ترمذی نے اس حدیث کو حسن بھی کہا ہے لیکن مسند امام احمد اور ترمذی کے لفظوں میں تھوڑا سافرق ہے اس لیے شاید حافظ ابن کثیر کا مطلب یہ ہے کہ مسند احمد کے لفظوں سے یہ حدیث صحاح ستہ کی کسی کتاب میں نہیں ہے ‘ مسند امام احمد اور ترمذی میں تو یہ قصہ الکفل کے نام سے ہے لیکن یہ روایت صحیح ابن حبان ‘ طبرانی اور شعب الایمان بیہقی میں بھی ہے اور ان کتابوں کی بعضی روایتوں میں کچھ قصہ الکفل کے نام سے بیان کیا گیا ہے ‘ اس سورة کا نام سورة الانبیاء ہے اور اللہ تعالیٰ نے ذوالکفل کا نام انبیاء کے ناموں کے ساتھ لیا ہے ‘ اس واسطے حافظ ابن کثیر (رح) نے صحابہ ؓ کے اس اختلاف کو یوں رفع کیا ہے 11 ؎ کہ قرآن شریف میں جن ذوالکفل کا ذکر ہے وہ تو نبی ہیں اور عبداللہ بن عمر ؓ کی روایت میں جس کا ذکر ہے وہ بنی اسرائیل میں کا کوئی دوسرا شخص ہے ‘ آخر کو فرمایا ‘ جن انبیاء کا ذکر ان آیتوں میں ہے یہ سب آزمائش کے وقت صبر کرنے والے ‘ اللہ کی مرضی کے پابند نیک بندے تھے اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی رحمت کے قابل ٹھہرایا۔ (1 ؎ صحیح بخاری مع فتح الباری ص 235۔ 239 ج 3۔ ) (2 ؎ فتح الباری ص 224 ج 3 ) (3 ؎ فتح الباری ص 334 ج 3 وفتح البیان ص 25 ج 3 ) (4 ؎ فتح الباری ص 226 ج 3 ) (5 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 8 ج 3 ) (6 ؎) مشکوٰۃ ص 527۔ (7 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 191 ج 3 ) (8 ؎ ایضا ) (9 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 391 ج 3 اور لکھا ہے اسنا وہ غریب ) (10 ؎ راقم کو جابع ترمذی کے ابواب الزہد میں یہ روایت نہیں مل سکی واللہ علم ‘ البتہ منذری نے بحوالہ جامع ترمذی وحاکم ذکر کی ہے دیکھئے عنوان ” الترغیب فی الخوف “ ) (11 ؎ اترغیب والترہیب باب مذکور میں تفسیر ابن کثیر ص 151 ج 3 )
Top