Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Anbiyaa : 96
حَتّٰۤى اِذَا فُتِحَتْ یَاْجُوْجُ وَ مَاْجُوْجُ وَ هُمْ مِّنْ كُلِّ حَدَبٍ یَّنْسِلُوْنَ
حَتّٰٓي : یہانتک کہ اِذَا : جب فُتِحَتْ : کھول دئیے جائینگے يَاْجُوْجُ : یاجوج وَمَاْجُوْجُ : اور ماجوج وَهُمْ : اور وہ مِّنْ : سے كُلِّ : ہر حَدَبٍ : بلندی (ٹیلہ) يَّنْسِلُوْنَ : پھیلتے (دوڑتے) آئیں گے
یہاں تک کہ یاجوج اور ماجوج کھول دیئے جائیں اور وہ ہر بلندی سے دوڑ رہے ہوں
96:۔ امام نووی اور بعض علماء نے ایک حکایت جو نقل کی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کو احتلام ہوگیا تھا۔ اور وہ نطفہ زمین پر گر پڑا ‘ اس خاک سے جو نسل چلی ‘ اسی کا نام یاجوج ماجوج ہے اس حکایت کی سند صحیح نہیں ہے 1 ؎‘ صحیح یہی ہے کہ یاجوج ماجوج یافث بن نوح کی اولاد ہیں اس کی تصریح مستدرک حاکم اور تفسیر ابن مردویہ کی معتبر روایت میں آئی ہے 2 ؎، دجال کا پیدا ہونا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا آسمان سے اترنا اور دجال کو قتل کرنا ‘ یہ سب دس نشانیاں قیامت کی جو صحیح 3 ؎ مسلم وغیرہ کی روایت میں ہیں جن نشانیوں کا ذکر مناسب طور پر ہر ایک آیت کے ساتھ آوے گا۔ ان دس نشانیوں میں سے ایک نشانی یاجوج ماجوج کا سکندری کو توڑ کر زمین میں پھیل جانا بھی ہے ‘ ترمذی ‘ صحیح ابن حبان ‘ مستدرک حاکم ‘ مسند عبدبن حمید وغیرہ میں جو معتبر 4 ؎ روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ اب یاجوج ماجوج کا کام یہی ہے کہ وہ سب مل کر سارا دن اس دیوار کو کھودا کرتے ہیں جو سکندر ذوالقرنین نے ان کے روکنے کو بنا دی ہے ‘ جب وہ دیوار قریب قریب اس کے کھودی جاتی ہے کہ ذرا اور کھودنے سے راستہ ہوجائے تو ان کا سردار کہتا ہے کہ کل راستہ کرلیں گے اور زمین پر چلے جاویں گے رات کو اللہ کی قدرت سے پھر وہ دیوار ویسی ہی ہوجاتی ہے جیسے کہ تھی۔ جب قیامت قریب ہوگی اور یاجوج ماجوج کے نکلنے کا وقت آجاوے گا تو ان کا سردار کہے گا کہ انشاء اللہ کل کے روز راستہ کر کے زمین پر پھیل جاویں گے ‘ اس رات کو وہ دیوار اور راتوں کی طرح مضبوط نہ ہوگی اور صبح کو یاجوج ماجوج کل روئے زمین پر پھیل جاویں گے ‘ مستدرک حاکم اور صحیح ابن حبان وغیرہ میں سند صحیح سے جو روایتیں 5 ؎ ہیں۔ ان کا حاصل یہ ہے کہ روئے زمین پر جس قدر انسان ہیں یاجوج ماجوج ان سب سے نو حصے زیادہ ہیں ‘ ایک ایک شخص کی ان میں سے ہزار کبھی ہزار سے زیادہ اولاد ہوجاتی ہے جب وہ شخص مرتا ہے تو اپنے مرے ہوئے مردوں کو وہ آپ ہی کھا جاتے ہیں 6 ؎‘ صحیح مسلم ‘ مسندامام احمد وغیرہ میں جو روایتیں ہیں 7 ؎۔ ان کا حاصل یہ ہے کہ جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) دجال کو قتل کر چکیں گے تو اللہ تعالیٰ کا حکم ہوگا کہ اب تم اپنے ساتھ کے مسلمانوں کو لے کر کوہ طور پر چلے جاؤ ‘ زمین پر اللہ کی ایک اور مخلوق آنے والی ہے جس کے مقابلہ کی تم کو طاقت نہیں ہے ‘ جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اپنے ساتھ کے مسلمانوں کو لے کر کوہ طور پر چڑھ جاویں گے ‘ اس وقت یاجوج ماجوج زمین میں پھیلیں گے سارے دریاؤں اور ندیوں کا پانی پی جاویں گے اور جو کچھ نظر پڑے گا وہ کھا جاویں گے زمین کو خالی پاکر وہ کہیں گے ‘ زمین والوں کو تو سب کو ہم نے ہلاک کردیا ‘ پھر آسمان کی طرف تیر چلاویں گے۔ اللہ کے حکم سے وہ تیر خون میں بھر کر گریں گے ‘ یہ دیکھ کر وہ کہیں گے ہم نے آسمان میں رہنے والوں کو بھی قتل کر ڈالا ‘ پھر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بددعا سے ان کی گردنوں میں پھوڑے نکل کر اور کیڑے پڑ کر سب مرجاویں گے ان کی لاشوں کی یہ کثرت ہوگی کہ تمام زمین میں کہیں جگہ باقی نہ رہے گی ‘ اللہ کے حکم سے ایک پر دار بڑے بڑے جانور پیدا ہوں گے ‘ وہ جانور ان کی لاشوں کو جہاں اللہ کا حکم ہوگا وہاں پھینک دیں گے اور زمین کو خالی کردیں گے پھر اللہ کے حکم سے مینہ برسے گا اور ساری زمین دھل کر صاف ہوجائے گی اور زمین میں ایسی برکت آجاوے گی کہ ایک انار کے دانوں سے چند آدمیوں کا پیٹ بھر جائے گا ‘ اس برکت کے زمانہ میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) حج کریں گے غرض سات برس زمین پر رہنے کے بعد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) وفات پاویں گے اور مدینہ منورہ میں آنحضرت ﷺ کے مزار شریف کے پاس حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمر ؓ کے مزار کے بیچ میں جو جگہ ہے ‘ وہاں دفن ہوں گے 7 ؎‘ پھر شام کے ملک کی طرف سے ایک ٹھنڈی ہوا چلے گی اور اس ہوا کی تاثیر سے اس طرح کے سب لوگ جن کے دل میں رائی برابر بھی ایمان ہے ایک دفعہ ہی مرجاویں گے اور دنیا میں اس طرح بد لوگ رہ جاویں گے کہ جانوروں کی طرح سر بازار بدکاریاں کریں گے اور بت پرستی بھی پھیل جائے گی ‘ دنیا کی عمر اس وقت بہت تھوڑی رہ جائے گی جس طرح پورے دنوں سے پیٹ والی عورت ہوتی ہے کہ ہر وقت اس کے جننے کا کھٹکا لگا رہتا ہے ‘ اسی طرح آسمان پر ملائکہ کو ہر وقت قیامت کا کھٹکا لگا رہے گا ‘ انجام یہ ہوگا کہ دنیا کے یہی کار خانے چل رہے ہوں گے ‘ مکانوں کی مرمت ہو رہی ہوگی بازار لگے ہوں گے ‘ دودھ والے جانوروں کا دودھ دوہا جا رہا ہوگا کہ ایک دفعہ ہی پہلا صور پھونکنے کا حکم ہوجائے گا اور تمام دنیا فنا ہوجائے گی۔ ایک اشکال اور اس کا حل یہاں ایک اعتراض ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ابوداؤد اور مستدرک حاکم وغیرہ میں جو روایتیں ہیں ‘ ان کا حاصل یہ ہے کہ ایک جماعت مسلمانوں کی ایسی ہوگی کہ آخر وقت تک دین پر قائم رہے گی اور اوپر جو ذکر ہوا ‘ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کی وفات کے بعد شام کے ملک کی طرف سے ایک ٹھنڈی ہوا چل کر جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہوگا وہ فوت ہوجائے گا اور کوئی مسلمان روئے زمین پر باقی نہ رہے گا اس اختلاف کا رفع کیونکر ہے۔ حافظ ابن حجر (رح) نے فتح الباری میں اس اعتراض کا جو جواب دیا ہے ‘ اس کا حاصل یہ ہے کہ حدیث میں جو یہ آیا ہے کہ آخر وقت تک ایک جماعت مسلمانوں کی دین پر قائم رہے گی۔ اس آخر وقت سے مراد یہ ہے کہ جب تک بڑی بڑی نشانیاں قیامت کی ظاہر نہ ہوں گی ‘ مثلا آفتاب کا مغرب کی طرف سے نکلنا یا اس جانور کا ظاہر ہونا ‘ جس کو دابۃ الارض کہتے ہیں ‘ اس وقت تک ایک جماعت مسلمانوں کی دین پر قائم رہے گی ‘ اس کے بعد وہ شام کی طرف کی ٹھنڈی ہوا چل کر سب مسلمان مرجاویں گے۔ غرض آخری وقت سے صور پھونکنے کا وقت مراد نہیں ہے ‘ کس لیے کہ صور پھونکنے کے وقت جس طرح کے لوگ زمین پر علی العموم ہوں گے ‘ ان کی صراحت صحیح حدیثوں میں آچکی ہے چناچہ صحیح مسلم ‘ مسند امام احمد ‘ ابن ماجہ ‘ طبرانی وغیرہ میں جو روایتیں 8 ؎ ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ صور پھونکنے کے وقت زمین پر ایسے لوگ ہوں گے کہ لَآ اِلٰہَ اِلّاَ اللّٰہُ اور اللہ کا کہنا زمین پر باقی نہ رہے گا اور سر بازار بدکاری دیکھ کر ان میں سے اگر کوئی یہ کہے گا کہ یہ کام دیوار کی آڑ میں کرنا چاہیے تھا تو اس کا درجہ ان لوگوں میں ایسا گنا جائے گا جیسے صحابہ ؓ میں حضرت ابوبکر ؓ اور عمر ؓ کا درجہ گنا جاتا ہے۔ ایک بحث : یہاں ایک بحث جو صحابہ ؓ کے زمانے سے اب تک چلی آتی ہے وہ یہ ہے کہ بعض صحابہ ؓ اس بات کے قائل ہیں کہ ابن صیاد ایک شخص جو آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں پیدا ہوا وہی دجال ہے اس ابن صیاد کا قصہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی روایت سے صحیحین میں اور روایتوں 9 ؎ سے مسلم وغیرہ میں ہے کہ آنحضرت ﷺ چند صحابہ ؓ کے ساتھ ابن صیاد کو دیکھنے تشریف لے گئے تھے۔ اور آپ ﷺ نے اس سے باتیں کیں اور اس نے آپ سے کہا کہ مجھ کو ایک تخت پانی پر نظر آیا کرتا ہے آپ نے فرمایا ‘ وہ شیطان کا تخت ہے ‘ حضرت عمر ؓ نے آپ سے ابن صیاد کے قتل کرنے کی اجازت چاہی آپ نے فرمایا۔ اگر یہ دجال ہے تو اس کو عیسیٰ (علیہ السلام) قتل کریں گے تم اس کو قتل نہیں کرسکتے ‘ پھر یہ ابن صیاد مسلمان ہوگیا اور حضرت ابو سعید خدری کے ساتھ ایک دفعہ یہ ابن صیاد حج کو جارہا تھا تو اس نے حضرت ابو سعید خدری ؓ سے کہا کہ لوگ میرے اوپر دجال ہونے کا شبہ کرتے ہیں ‘ اس واسطے میرا جی چاہتا ہے کہ میں اپنا گلا گھونٹ کر مرجاؤں ‘ پھر آخر کو اس نے یہ بھی کہا کہ دجال کو ‘ دجال کی پیدائش کی جگہ کو اور اس بات کو کہ اس وقت دجال کہاں ہے ‘ میں خوب جانتا ہوں ‘ حضرت ابوذر ؓ ‘ عبداللہ بن مسعود ‘ حضرت عمر ؓ ‘ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ ‘ حضرت جابر ؓ قسمیں 10 ؎ کھایا کرتے تھے کہ ابن صیاد ہی دجال ہے اگرچہ بعضے علماء نے یہ روایت کی ہے کہ ابن صیاد مدینہ میں ہی مرگیا لیکن صحیح روایت یہ ہے کہ یزید کی خلافت کے زمانہ میں یہ ابن صیاد لوگوں کی نظروں سے غائب ہوگیا 11 ؎۔ بہیقی نے ابن صیاد کے دجال ہونے کا انکار کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ جن صحابہ ؓ کو تمیم داری کا قصہ معلوم نہ تھا ‘ انہوں نے ابن صیاد کو دجال کہا 12 ؎ ہے۔ تمیم داری کے قصہ کی مسلم وغیرہ نے روایت کیا ہے حاصل اس قصہ کا یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ ایک روز بےوقت اپنے حجرہ سے مسجد نبوی میں تشریف لائے اور مہاجرین اور انصار صحابہ ؓ کو بلا کر جمع کیا اور فرمایا کہ میں نے تم سب کو اس وقت خاص اس لیے جمع کیا ہے کہ تمیم داری جو ایک شخص نصرانی اسلام لایا ہے کہتا ہے کہ اس کی کشتی طوفان میں آکر ایک ٹاپو میں چلی گئی تھی ‘ وہاں یہود کا ایک عبادت خانہ تھا جس میں ایک شخص زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا اس نے تمیم داری ؓ سے باتیں کیں اور پوچھا کہ ملک شام میں بیسان جو ایک قصبہ ہے وہاں کی کھجوروں میں ابھی پھل آتا ہے تمیم داری ؓ نے کہا ہاں ان میں پھل آتا ہے اس شخص نے کہا کہ ایک زمانہ قریب میں ایسا آوے گا کہ ان کھجوروں میں پھل آنا بند ہوجائے گا اور پھر ملک شام میں طبریہ جو ایک چشمہ ہے اس میں پانی ہونے کا حال تمیم داری ؓ سے سن کر کہنے لگا کہ کچھ مدت میں اس کا پانی بھی سوکھ جائے گا پھر نبی آخرالزمان کا حال پوچھا اور کہا کہ تو سوائے مکہ اور طیبہ کے میں ساری زمین کو روند ڈالوں گا اور طیبہ کے ناکوں پر ننگی تلواریں لیے فرشتے کھڑے ہوں گے اس واسطے وہاں نہ جاسکوں گا۔ یہ قصہ تمیم داری ؓ کا آنحضرت ﷺ نے ذکر فرما کر فرمایا کہ یاد رکھو طیبہ مدینہ کا نام ہے۔ بقیا نے یہ قصہ نقل کرتے وقت یہ بھی روایت کی ہے کہ تمیم داری ؓ نے جس شخص کو زنجیروں میں جکڑا ہوا دیکھا وہ شخص بڈھا تھا اور ابن صیاد کو آنحضرت ﷺ نے تمیم داری ؓ کے قصہ سے تھوڑے عرصہ پہلے جو دیکھا تو اس وقت ابن صیاد کی عمر چودہ پندرہ برس کی تھی پھر ابن صیاد اور دجال ایک کیونکر ہوسکتے ہیں 13 ؎‘ حافظ ابن حجر ؓ نے اس بحث کا یہ فیصلہ کیا ہے کہ دجال تو اصل میں وہی شخص ہے جس کو تمیم داری ؓ نے دیکھا ہے مگر ابن صیاد شیطان ہے جو دجال کے ساتھ اس کے ہمراز کے طور پر پیدا ہوا ہے 14 ؎۔ صحیح مسلم کی بعض روایتوں کو جو دیکھا جاتا ہے تو ابن صیاد کی عادتیں انسانوں کی نہیں پائی جاتیں مثلا یہ روایت کہ ابن صیاد کو شیطان کا تخت پانی پر نظر آتا ہے اور یہ روایت کہ مدینہ کے ایک گلی میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ اور ابن صیاد کا کچھ جھگڑا ہوگیا تھا جس جھگڑے کے سبب سے ابن صیاد کو غصہ آگیا اور وہ غصہ کے سبب سے ایسا پھول گیا کہ مدینہ کی تمام گلی اس کے جسم سے بھر گئی یا یہ روایت کہ اس نے کہا مجھ کو دجال کا حال اور اس کی پیدائش کی جگہ معلوم ہے اور اگر میں دجال بنا دیا جاؤں تو میں اس بات کو کچھ برا نہیں جانتا ‘ جب ان روایتوں سے ابن صیاد کی عادتیں انسانوں کی سی نہیں پائی جاتیں تو حافظ ابن حجر (رح) نے جو فیصلہ ابن صیاد کے باب میں کیا ہے اس فیصلہ کی تائید ان روایتوں سے پورے طور پر ہوتی ہے ‘ امام بخاری (رح) کا منشا بھی قریب قریب اس کے معلوم ہوتا ہے کہ ابن صیاد دجال ہے کیونکہ امام بخاری (رح) نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں فقط ابن صیاد کا قصہ ذکر کیا ہے تمیم داری کا قصہ ذکر نہیں کیا 15 ؎‘ دوسرے صور کے وقت لوگ جو قبروں سے نکل کر زمین پر ٹڈیوں کی طرح پھیلیں گے بعضے مفسرین نے من کل حدب ینسلون کی تفسیر اسی حالت کو قرار دیا ہے 16 ؎، لیکن صحیح مسلم میں نواس بن سمعان کی جو روایت ہے اس میں خود اللہ کے رسول ﷺ نے من کل حدب ینسلون کی تفسیر میں یاجوج ماجوج کے پھیلنے کا ذکر فرمایا ہے۔ اس واسطے آیت کی وہی تفسیر صحیح ہے جو اوپر بیان کی گئی۔ (1 ؎ تفسیر ابن کثیرص 104 ج 3 ) (2 ؎ فتح الباری ص 575 ج 6۔ ) (3 ؎ دیکھئے مشکوٰۃ باب العلامات بین یدی الساعۃ وذکر الدجال ) (4 ؎ فتح الباری ص 576 ج 6 ) (5 ؎ فتح الباری ص 230 ج 3 و 575 ج 6 والدر المنثورص 250 251 ج 4۔ لیکن ان میں سے اکثر اسرائیلیات ہیں جو بغیر کسی صحیح بنیاد کے ناقابل اعتماد ہیں (ع ‘ ح ) (6 ؎ دیکھئے مشکوٰۃ ص 473 وفتح الباری ص 576 طبع دہلی) (5 ؎ الدر المنثور ص 336۔ 338 ج 4 ) (7 ؎ ایضا فتح الباری 682 ج 6 شرح باب ما ذکر النبی ﷺ وحض علیٰ اتفاق اہل العلم الخ۔ ) (8 ؎ فتح الباری ص 523 ج 6 کتاب الفتن۔ ) (9 ؎ ان روایات کے لیے دیکھئے مشکوٰۃ ص 487۔ 479۔ ) (10 ؎ صحیح بخاری مع فتح الباری ص 692۔ 694 ج اطبع ہند ) (11 ؎ مشکوٰۃ ص 479 ) (12 ؎ مشکوٰۃ ص 475 وفتح الباری ص 694 ج 6 ) (13 ؎ فتح لباری ص 694 باب ایضا ) (14 ؎ فتح الباری ص 692 ج 6۔ ) (15 ؎ فتح الباری ص 694 ج 6 ) (16 ؎ مشکوٰۃ ص 474 )
Top