Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Hajj : 14
اِنَّ اللّٰهَ یُدْخِلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَفْعَلُ مَا یُرِیْدُ
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يُدْخِلُ : داخل کرے گا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : وہ جو لوگ ایمان لائے وَ : اور عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ : انہوں نے درست عمل کیے جَنّٰتٍ : باغات تَجْرِيْ : بہتی ہیں مِنْ تَحْتِهَا : ان کے نیچے سے الْاَنْهٰرُ : نہریں اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يَفْعَلُ : کرتا ہے مَا يُرِيْدُ : جو وہ چاہتا ہے
جو لوگ ایمان لائے اور عمل نیک کرتے رہے خدا انکو بہشتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں چل رہی ہیں کچھ شک نہیں کہ خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے
14:۔ ان لوگوں کی عقلوں کی خرابی کا ذکر تھا جو دنیا کے لالچ سے ظاہری طور پر دائرہ اسلام میں داخل ہوتے ہیں اور حقیقت میں گویا اس دائرہ کے کنارے پر کھڑے رہ جاتے ہیں ‘ اندر نہیں گھستے کیونکہ جس طرح کسی چھت کے کنارہ پر کھڑا ہونے والا شخص ذرا سی ٹھیں میں گر پڑتا ہے اسی طرح جن لوگوں کا اوپر ذکر ہے وہ بھی ذرا سی آزمائش میں دائرہ اسلام کے باہر ہوجاتے ہیں ان آیتوں میں فرمایا ‘ جو لوگ پکے ایماندار ہیں اور تکلیف اور راحت ہر حال میں نیک کام کرتے رہتے ہیں اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کو ایسے باغوں میں ہمیشہ کے لیے رہنے کا حکم دیوے گا جن کے باغوں کے درختوں کے نیچے دودھ ‘ شہد ‘ شراب اور پانی کی نہریں جاری ہوں گی دنیا کی نہروں میں بہت دنوں تک پانی رہے تو اس میں ایک طرح کی بدبو پیدا ہوجاتی ہے دنیا کا دودھ زیادہ رہنے سے کھٹا ہوجاتا ہے ‘ دنیا کی شراب میں تلخی ہوتی ہے دنیا کا شہد بیرو چھانے کے صاف نہیں ہوتا جنت کے دودھ ‘ شہد ‘ شراب اور پانی میں یہ باتیں نہ ہوں گی چناچہ اس کی تفصیل سورة محمد میں آئے گی ‘ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ 1 ؎ کی روایت سے حدیث قدسی کئی جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا جنت میں وہ وہ نعمتیں پیدا کی گئی ہیں جو نہ کسی نے آنکھوں سے دیکھیں ‘ نہ کانوں سے سنیں ‘ نہ کسی کے دل میں ان کا خیال گزر سکتا ہے ‘ اس حدیث سے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے کہ اس آیت میں اور آیتوں میں جہاں کہیں جنت کی نعمتوں کا ذکر ہے وہ مختصر طور پر ہے تمام لوگوں کے نیک و بدعمل اور ان عملوں کے سبب سے ہر ایک کا جنت اور دوزخ کا ٹھکانا اللہ تعالیٰ کو سب معلوم ہے اس واسطے اخیر آیت میں فرمایا قیامت کے دن اپنے علم اور ارادہ کے موافق اللہ تعالیٰ جزاو سزا کا جو فیصلہ کرے گا وہ ٹل نہیں سکتا۔ اس تفسیر میں ایک جگہ یہ گزر چکا ہے کہ پہلے ہر کام کا نتیجہ سوچ لیا جاتا ہے پھر اس کے کرنے یا نہ کرنے کا ارادہ کیا جاتا ہے علماء کا یہ قول جو مشہور ہے کہ ارادہ علم کا تابع ہے اس کا یہی مطلب ہے کہ پہلے ہر کام کا نتیجہ سوچا جاتا ہے پھر اس کے کرنے یا نہ کرنے کا قصد کیا جاتا ہے حاصل کلام یہ ہے کہ ہر ارادہ کے ساتھ علم لگا ہوا ہے اس لیے آیت کے آخری ٹکڑے کا مطلب وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنے علم غیب اور ارادہ کے موافق جزاو سزا کا جو فیصلہ کرے گا وہ ٹل نہیں سکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا علم غب ردو بدل سے پاک ہے۔
Top