Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Hajj : 17
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ هَادُوْا وَ الصّٰبِئِیْنَ وَ النَّصٰرٰى وَ الْمَجُوْسَ وَ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْۤا١ۖۗ اِنَّ اللّٰهَ یَفْصِلُ بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ شَهِیْدٌ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے وَالَّذِيْنَ : اور جو هَادُوْا : یہودی ہوئے وَ : اور الصّٰبِئِيْنَ : صابی (ستارہ پرست) وَالنَّصٰرٰي : اور نصاریٰ (مسیحی) وَالْمَجُوْسَ : اور آتش پرست وَالَّذِيْنَ اَشْرَكُوْٓا : اور وہ جنہوں نے شرک کیا (مشرک) اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يَفْصِلُ : فیصلہ کردے گا بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے شَهِيْدٌ : مطلع
جو لوگ مومن (یعنی مسلمان) ہیں اور جو یہودی ہیں اور ستارہ پرست اور عیسائی اور مجوسی اور مشرک خدا ان (سب) میں قیامت کے دن فیصلہ کر دے گا بیشک خدا ہر چیز سے باخبر ہے
17:۔ سورة آل عمران میں گزر چکا ہے کہ یوم المیثاق میں اللہ تعالیٰ نے سب انبیاء سے اور انبیاء نے اپنی امتوں سے یہ مضبوط عہد لیا ہے کہ ہر زمانہ میں اسی شریعت کے موافق عمل ہوگا جو شریعت اللہ تعالیٰ نے اپنی مرضی کے موافق ہر ایک زمانہ کے لیے ٹھہرائی ہے اور اس آخری زمانہ کی مصلحت کے موافق مرضی الٰہی یہی ہے کہ اس زمانہ میں جو شخص آخری شریعت شرع محمدی کے موافق عمل کرے گا عقبیٰ سے اسی کو اجر ملے گا نہیں تو نہیں کیونکہ اجر اسی عمل پر مل سکتا ہے جو مرضی الٰہی کے موافق ہے ‘ مرضی الٰہی کے برخلاف کام پر تو مؤاخذہ ہوگا ‘ پھر ایسے کاموں پر اجر کہاں ‘ حاصل کلام یہ ہے کہ اس عہد کی بنا پر اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ اس آخری زمانے میں موسیٰ (علیہ السلام) زندہ ہوتے تو ان کو شرع محمدی کی پیروی لازمی ہوتی یہ حدیث جابر بن عبداللہ کی روایت سے مسند امام احمد ‘ شعب الایمان بیہقی ‘ صحیح ابن حبان میں اور حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت 3 ؎ سے ابن ماجہ مسند امام احمد میں ہے اور اس کی سند صحیح ہے ‘ سورة آل عمران میں عہد کی آیتوں کی جو تفسیر ہے اس کو اس آیت کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ اس آخری زمانہ میں جو لوگ مرضی الٰہی کی شریعت کے پابند ہیں ان کا اور جو مرضی الٰہی کی شریعت کے منکر ہیں ان کا حاصل اللہ تعالیٰ کو سب معلوم ہے ‘ قیامت کے دن ان سب کا فیصلہ ہوجائے گا ‘ جو شخص ایک حالت کو چھوڑ کر دوسری حالت کا پابند ہوجائے تو عربی زبان میں اس کو صابی کہتے ہیں ‘ چناچہ صحیح 1 ؎ بخاری میں ابوہریرہ ؓ کی روایت سے جو قصہ ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ ثمامہ بن اثال کے اسلام لانے کے بعد مشرکین مکہ ثمامہ ؓ کو صابی کہتے تھے ‘ تمام اہل کتاب ابراہیم (علیہ السلام) کی نبوت کے قائل ہیں اور فرقہ صائبین ابراہیم (علیہ السلام) کی نبوت کا منکر ہے اس لیے اہل کتاب تو اس فرقہ کو یوں صابی کہتے ہیں کہ یہ فرقہ ملت ابراہیمی کو چھوڑ کر ایک نئی حالت کا پابند ہے اس فرقہ کے لوگ ادریس (علیہ السلام) کی نبوت کے قائل ہیں اس واسطے اس فرقہ کا شمار پارسی اور بت پرست لوگوں میں بھی نہیں ہے ‘ یہ فرقہ ستارہ پرست ہے اور نجوم کا رواج اس فرقہ کے لوگوں میں بہت ہے یونانی لوگوں کی طرح یہ فرقہ بھی جسمانی حشر کا قائل نہیں ہے۔ (3 ؎ تنقیح الرواۃ ص 42 ج 1۔ ) (1 ؎ باب وفد بنی حنیفہ و حدیث ثمامہ بن اثال )
Top