Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Hajj : 19
هٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِیْ رَبِّهِمْ١٘ فَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِیَابٌ مِّنْ نَّارٍ١ؕ یُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُءُوْسِهِمُ الْحَمِیْمُۚ
ھٰذٰنِ : یہ دو خَصْمٰنِ : دو فریق اخْتَصَمُوْا : وہ جھگرے فِيْ رَبِّهِمْ : اپنے رب (کے بارے) میں فَالَّذِيْنَ : پس وہ جنہوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا قُطِّعَتْ : قطع کیے گئے لَهُمْ : ان کے لیے ثِيَابٌ : کپڑے مِّنْ نَّارٍ : آگ کے يُصَبُّ : ڈالا جائے گا مِنْ فَوْقِ : اوپر رُءُوْسِهِمُ : ان کے سر (جمع) الْحَمِيْمُ : کھولتا ہوا پانی
یہ دو (فریق) ایک دوسرے کے دشمن اپنے پروردگار (کے بارے) میں جھگڑتے ہیں تو جو کافر ہیں ان کے لئے آگ کے کپڑے قطع کئے جائیں گے (اور) ان کے سروں پر جلتا ہوا پانی ڈالا جائے گا
19۔ 24:۔ صحیحین ابوداؤد ‘ مستدرک حاکم وغیرہ میں حضرت علی ؓ اور ابوذر ؓ کی روایت سے جو شان نزول اس آیت کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ بدر کی لڑائی میں مشرکین مکہ میں سے جس وقت یہ تین شخص شیبہ بن ربیعہ اور شیبہ کا بھائی عتبہ اور عتبہ کا بیٹا ولید مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے صف جنگ سے باہر نکلے تو ایک انصاری جوان نے ان کا مقابلہ کرنا چاہا انہوں نے کہا کہ ہم تم لوگوں سے لڑنا پسند نہیں کرتے بلکہ ہم کو تو اپنے ہم قوم قریش کے لوگوں سے مقابلہ کرنے کا شوق ہے یہ سن کر آنحضرت ﷺ نے حضرت امیر حمزہ ؓ اور حضرت علی ؓ اور عبیدہ بن حارث ان ان تینوں کو مشرکوں کے مقابلہ کرنے کا شوق ہے یہ سن کر آنحضرت ﷺ نے حضرت امیر حمزہ ؓ اور حضرت علی ؓ اور عبیدہ بن حارث ان تینوں کو مشرکوں کے مقابلہ کے لیے بھیجا ‘ ان ہی دو دو شخصوں کے مقابلہ کی شان میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ہے۔ تفسیر ابن جریر وغیرہ میں اس آیت کی شان نزول یہ جو بیان کی گئی ہے کہ یہود اور مسلمانوں میں ایک دن جھگڑا ہوا تھا۔ یہود نے اپنے دین کو اچھا بتلایا اور مسلمانوں نے اپنے دین کو اس پر یہ آیت نازل ہوئی ہے۔ اس قول کا مقصد یہ ہے کہ اس قصہ پر بھی آیت کا مطلب صادق آتا ہے کیونکہ جس طرح اس مقابلہ میں ایک گروہ حق پر تھا اور دوسرا ناحق پر ‘ اسی طرح اس جھگڑے کا حال ہے ‘ غرض اصل شان نزول وہی ہے جو صحیحین کی روایت میں ہے کیونکہ ابوذر ؓ اس شان نزول کو قسم کھا کر روایت کیا کرتے تھے۔ اب آگے ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اس مقابلہ کا نتیجہ ذکر فرمایا ہے کہ اس مقابلہ میں ناحق پر جو لوگ مارے گئے دنیا میں تو ان کی جان گئی اور عقبیٰ میں لگے ہوئے تانبے کے کپڑے ان کو پہنائے جاویں گے ان کے سر پر کھولتا ہوا پانی ڈالا جائے گا جس سے بدن کی کھالیں اور پیٹ کی انتڑیاں جل کر گر پڑیں گی۔ بھاری بھاری ہتھوڑوں سے سر کچلا جائے گا اسی طرح کے عذاب ہوں گے ان عذابوں سے گھبرا کر جب یہ لوگ دوزخ سے باہر بھاگنا چاہیں گے تو فرشتے پھر گھیر کر ان کو اندر کر دیویں گے اور کہیں گے جس عذاب کو تم جھٹلاتے تھے اب اس عذاب کا مزہ چکھو ‘ اکثر متقدمین مفسروں سے روایت ہے کہ جس طرح پانی میں کوئی ڈوب کر اوپر کو آتا ہے اسی طرح آگ کی لپٹ میں دوزخی جب اوپر کو آویں گے یہ اس وقت کا حال ہے ورنہ خود ان کو بھاگنے کا موقع نہ ملے گا کیونکہ ان کے ہاتھ ‘ پیر زنجیروں سے جکڑے ہوئے ہوں گے ان اہل دوزخ کے بعد اللہ تعالیٰ نے اہل جنت کا ذکر فرمایا ہے کہ طرح طرح کے ریشمی کپڑے کے خلعت ان کو ملیں گے ‘ سونے اور موتیوں کے جڑاؤ کپڑے پہنائے جاویں گے ‘ فرشتے ان کو شادمانی کی مبارک باد دیویں گے سوا اس کے جنت کی تفصیلی نعمتیں جو ہیں صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی روایت سے حدیث قدسی اس بات میں کئی جگہ گزر چکی ہے کہ وہ نعمتیں نہ کسی نے آنکھوں سے دیکھی ‘ نہ کانوں سے سنی ‘ نہ ان کا خیال کسی کے دل میں گزر سکتا ہے ‘ آخر کو فرمایا جنت کی یہ نعمتیں ان نیک لوگوں کو اس واسطے دی جاویں گی کہ دنیا میں یہ لوگ اللہ کی وحدانیت پر قائم رہ کر اللہ کی مرضی کے موافق کاموں میں لگے رہے اطیب من القول کا مطلب اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر قائم رہنے کا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اور انسان کی سب ضرورت کی چیزوں کو اس طرح پیدا کیا کہ اس میں کوئی اس کا شریک نہیں اس واسطے دنیا میں اس سے بڑھ کر کوئی ستھری بات نہیں کہ انسان خالص اللہ ہی کی ذات کو اپنا معبود قرار دیوے صراط الحمید اس کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں نے اس اللہ تعالیٰ کا راستہ اختیار کیا جس کے سب کام تعریف کے قابل ہیں مسند امام احمد اور ابوداؤد میں براء بن العازب سے صحیح روایت 1 ؎ ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ‘ قابل عذاب لوگوں کے مارنے کے لیے جو ہتھوڑے فرشتوں کو دیئے گئے ہیں اگر ان میں کا ایک ہتھوڑا پہاڑ پر مارا جاوے تو پہاڑ خاک درخاک ہوجائے جن ہتھوڑوں کا ذکر آیتوں میں ہے ان کے بھاری پن کی تفسیر اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آجاتی ہے۔ (1 ؎ مشکوٰۃ ص 25۔ باب اثبات عذاب القبر۔ )
Top