Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Hajj : 25
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِیْ جَعَلْنٰهُ لِلنَّاسِ سَوَآءَ اِ۟لْعَاكِفُ فِیْهِ وَ الْبَادِ١ؕ وَ مَنْ یُّرِدْ فِیْهِ بِاِلْحَادٍۭ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ۠   ۧ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا وَيَصُدُّوْنَ : اور وہ روکتے ہیں عَنْ : سے سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ : اور مسجد حرام (بیت اللہ) الَّذِيْ : وہ جسے جَعَلْنٰهُ : ہم نے مقرر کیا لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے سَوَآءَ : برابر ۨ الْعَاكِفُ : رہنے والا فِيْهِ : اس میں وَالْبَادِ : اور پردیسی وَمَنْ : اور جو يُّرِدْ : ارادہ کرے فِيْهِ : اس میں بِاِلْحَادٍ : گمراہی کا بِظُلْمٍ : ظلم سے نُّذِقْهُ : ہم اسے چکھائیں گے مِنْ : سے عَذَابٍ : عذاب اَلِيْمٍ : دردناک
جو لوگ کافر ہیں اور (لوگوں کو) خدا کے راستے سے اور مسجد محترم سے جسے ہم نے لوگوں کے لئے یکساں (عبادت گاہ) بنایا ہے روکتے ہیں خواہ وہاں کے رہنے والے ہوں یا باہر سے آنے والے اور جو اس میں شرارت سے کجروی (وکفر) کرنا چاہے اس کو ہم درد دینے والے عذاب کا مزا چکھائیں گے
25:۔ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ کو یہ الزام دیا ہے کہ یہ مشرک لوگ اپنے آپ کو ملت ابراہمی پر کہتے ہیں حالانکہ حضرت ابرہیم (علیہ السلام) نے جب اللہ کے حکم سے کعبہ بنایا ہے تو اس لیے بنایا ہے کہ دور دور سے لوگ آویں اور اس میں خالص اللہ کی عبادت کریں حضرت عبداللہ 1 ؎ بن عباس ؓ کے صحیح قول کے موافق کعبہ کے بن جانے کے بعد مقام ابراہیم جس پتھر کا نام ہے اس پر کھڑے ہو کر حضرت ابرہیم (علیہ السلام) نے لوگوں کے دل کعبہ کی طرف مائل ہوجانے کی غرض سے ایک اذان دی جس اذان کا مضمون یہ تھا کہ اے لوگو ! حج کرنے کو آؤ ‘ اللہ کا گھر بن کر تیار ہوچکا ہے اس اذان کی تاثیر اللہ تعالیٰ نے ہر مسلمان کے دل میں ڈال دی ہے کہ قیامت تک جن ارواحوں نے اس اذان کے جواب میں لبیک کہا ہے وہ حج اور عمرہ کی نیت سے کعبہ کو آویں گے ‘ صلح حدیبیہ کے وقت ان مشرکوں نے ملت ابراہیمی ( علیہ السلام) کے خلاف اور اس غرض کے خلاف جس غرض سے کعبہ بنایا ہے مسلمانوں کو تو عمرہ سے روکا اور خود اللہ کے گھر میں بت پرستی پھیلاتے ہیں اور دوسروں کو بھی نیک راہ سے روک کر بت پرستی کے راستہ سے لگاتے ہیں ‘ پھر یہ لوگ اپنے آپ کو ملت ابراہیمی ( علیہ السلام) پر کیوں کر بتلاتے ہیں ‘ اس بات میں سب علماء کا اتفاق 2 ؎ ہے کہ مسجد حرام میں مسافر اور مکہ کے رہنے والے برابر ہیں کوئی کسی کو طواف نماز یا اور عبادت سے روک نہیں سکتا ‘ ہاں تمام شہر مکہ کے حکم میں حضرت عمر ؓ اور حضرت عبداللہ بن عباس ؓ یہ فرماتے ہیں کہ مسجد الحرام اور تمام مکہ کا ایک ہی حکم ہے باقی صحابہ کو اس میں اختلاف ہے وہ کہتے ہیں کہ مسجد الحرام کے سوا مکہ میں جن لوگوں کے گھر ہیں ان کو اپنے گھروں کا اختیار ہے ان آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حرم کی حد کے اندر جو کوئی گناہ کا ارادہ بھی کرے تو اس پر اس سبب سے عذاب ہوگا کہ اس نے حرم کی بزرگی میں خلل ڈالنے کا ارادہ کیا ‘ اسی واسطے بخاری وغیرہ میں ابوہیرہ ؓ کی حدیث 3 ؎ میں یہ جو حکم ہے کہ نیکی فقط قصد کرلینے سے لکھ لی جاتی ہے اور بدی جب تک عمل نہ کرلیا جائے فقط قصد سے نہیں لکھی جاتی ‘ اس حدیث کا حکم حرم کی سر زمین کے سوا اور سر زمین کے لیے ہے ‘ چناچہ مسند امام احمد بن حنبل ‘ تفسیر سدی اور تفسیر ابن ابی حاتم میں حضرت عبداللہ ؓ بن مسعود کی صحیح روایت 4 ؎ سے صراحت بھی آچکی ہے کہ سرحد حرم کے اندر گناہ کے ارادہ کی بھی پکڑ اور اس پر عذاب ہے مجاہد اور علمائے سلف کا مذہب ہے کہ حرم کے حد کے اندر جو شخص گناہ کرے گا اس پر دوگنا عذاب ہوگا ‘ گناہ کا عذاب جدا اور حد حرم کی بزرگی میں خلل ڈالنے کا عذاب جدا ‘ صلح حدیبیہ کے وقت مشرکین مکہ نے اللہ کے رسول اور ان کے ساتھ کے مسلمانوں کو عمرہ کے ارادہ سے روک کر مکہ کے اندر جو نہیں جانے دیا ‘ اس کا پورا قصہ تو سورة انا فتحنا کی تفسیر میں آئے گا لیکن حاصل اس قصہ کا یہ ہے کہ ہجرت کے بعد 6؁ھ میں اللہ کے رسول ﷺ نے چودہ سو صحابہ ؓ کے ساتھ عمرہ کی نیت سے مکہ کا ارادہ کیا اور مشرکین نے راستہ کے ایک مقام پر جس کا نام حدیبیہ ہے آپ کو مع صحابہ ؓ کے روک کر مکہ کے اندر جانے سے منع کیا اس کے بعد چند شرطوں پر دس برس تک کے لیے صلح ہوئی ‘ ان شرطوں میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ صلح کی مدت تک قبیلہ خزاعہ مسلمانوں کے امن میں رہے اور قبیلہ بنی بکر مشرکین مکہ کے امن میں ‘ صلح کے دو برس کے بعد قبیلہ خزاعہ اور بنی بکر میں لڑائی ہوئی اور مشرکین مکہ نے صلح کے برخلاف درپردہ قبیلہ بنی بکر کو مدد دی ‘ مغازی ابن 1 ؎ اسحاق میں جو روایتیں ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لڑائی اور مدد حرم کی حد کے اندر بھی جاری رہی اور حرم کی عزت و حرمت کا بالکل کچھ پاس ولحاظ نہیں رکھا گیا ‘ مسند بزار میں اس قصہ کی روایت جو ابوہریرہ ؓ سے 2 ؎ ہے اس کی سند بھی معتبر ہے ‘ حاصل کلام یہ ہے کہ جب اللہ کے رسول ﷺ کو یہ حال معلوم ہوا تو آپ نے مکہ پر چڑھائی کی اور اس کی سند بھی معتبر ہے ‘ حاصل کلام یہ ہے کہ جب اللہ کے رسول ﷺ کو یہ حال معلوم ہوا تو آپ نے مکہ پر چڑھائی کی اور اللہ کی مدد سے مکہ فتح ہوگیا ‘ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے انس بن مالک کی یہ روایت بھی کئی جگہ گزر چکی ہے کہ بدر کی لڑائی میں مشرکین مکہ میں کے بڑے بڑے سرکش جو مارے گئے وہ مرتے ہی عذاب میں گرفتار ہوگئے ‘ جس عذاب کے جتلانے کے لیے اللہ کے رسول ﷺ نے ان کی لاشوں پر کھڑے ہو کر یہ فرمایا کہ اب تو تم لوگوں نے عذاب الٰہی کے وعدہ کو سچا پالیا ‘ آیت میں یہ جو ذکر ہے کہ جو شخص حرم کی حد کے اندر شرارت سے ٹیڑھی راہ چلے گا ‘ اس کو دردناک سزا کا مزہ چکھنا پڑے گا ‘ ان روایتوں سے اس کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ مشرکین مکہ نے اللہ کے رسول کو عمرہ سے روکنے کی حرم کی حد میں لڑائی اور شرک کا فساد پھیلانے کی صلح کی شرط پر قائم نہ رہنے کی جو شرارت کی اس کی سزا میں دنیا اور عقبیٰ کے عذاب کی وہ ذلت انہوں نے بھگتی جس کا ذکر اوپر کی آیتوں میں ہے۔ (1 ؎ تفسیر ابن جریرص 144 ج 17 وابن کثیر ص 216 ج 3 ) (2 ؎ فتح البیان ص 160 ج 3 ) (3 ؎ صحیح بخاری باب قول اللہ تعالیٰ یریدون ان یبدلوا کلام اللہ من کتاب التوحید ) (4 ؎ تفسیر ابن کیثر 215 ج 3۔ ) (1 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 186 ج 4 تفسیر سورة فتح ) (2 ؎ فتح الباری ص 30 ج 4 باب غزوۃ الفتح )
Top