Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Hajj : 32
ذٰلِكَ١ۗ وَ مَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوْبِ
ذٰلِكَ : یہ وَمَنْ : اور جو يُّعَظِّمْ : تعظیم کرے گا شَعَآئِرَ اللّٰهِ : شعائر اللہ فَاِنَّهَا : تو بیشک یہ مِنْ : سے تَقْوَي : پرہیزگاری الْقُلُوْبِ : جمع قلب (دل)
یہ (ہمارا حکم ہے) اور جو شخص ادب کی چیزوں کی جو خدا نے مقرر کی ہیں عظمت رکھے تو یہ (فعل) دلوں کی پرہیزگاری میں سے ہے
32۔ 33:۔ صحیح بخاری ومسلم میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ‘ رمضان کے مہینے میں عمرہ حج کے ثواب کے برابر ہے ‘ ترمذی میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی صحیح روایت میں 3 ؎ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے رجب میں عمرہ ادا کیا۔ بیہقی میں حضرت علی ؓ کی صحیح روایت 4 ؎ میں ہے کہ عمرہ کا احرام ہر ایک مہینے میں جائز ہے۔ بخاری میں بغیر سند کے معلق طور پر اور صحیح ابن خزیمہ ‘ مستدرک حاکم وغیرہ میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے مع سند کے روایت ہے ‘ جس میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں 1 ؎‘ اللہ کے رسول کی سنت یہی ہے کہ حج کا احرام حج کے مہینوں میں باندھا جائے ‘ بخاری میں معلق طور پر اور دار قطنی وغیرہ میں مع سند کے عبداللہ بن عمر ؓ سے جو روایت 2 ؎ ہے اس میں ہے کہ حج کے مہینے شوال سے لے کر ذی الحجہ کی دسویں تک ہیں ‘ صحیح مسلم میں جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے جس میں 3 ؎ جابر ؓ فرماتے ہیں ‘ آنحضرت ﷺ کے روبرو حج اور عمرہ کی قربانی کے اونٹ اور گائے میں ہم سات آدمی شریک ہوجاتے تھے شعائر شعیرہ کی جمع ہے جس کے معنی نشانی کے ہیں ‘ احرام کے مہینوں میں حج کے احرام کے وقت یا کسی اور مہینہ میں عمرہ کے احرام کے وقت قربانی کی مقررہ مقدار سے زیادہ کعبہ کے چڑہانے کی نیت سے منیٰ میں ذبح کرنے کے لیے جو جانور ساتھ لے جاتے ہیں ‘ سورة المائدہ میں اور اس آیت میں ان کو شعائر اللہ فرمایا جس کا مطلب یہ ہے کہ احرام کے بعد ان جانوروں کو ساتھ رکھنا نشانی کے لیے ان کے گلے میں پٹہ کا ڈالا دینا ‘ سفر حج یا عمرہ بلا ضرورت اونٹ پر سواری نہ کرنا ‘ اسی طرح ان جانوروں میں اگر اونٹنی ہو تو بلا ضرورت اس کا دودھ نہ پینا ‘ یہ سب اللہ کی تعظیم کی نشانیاں ہیں اور تعظیم آدمی کی دلی پرہیز گاری کی علامت ہے ‘ کعبہ کی نیاز کی نیت سے جب تک ان جانوروں کو اللہ کے نام کے جانور نہ ٹھہرایا جائے اس وقت تک اونٹ پر سواری کرنا ‘ اونٹنی کا دودھ پینا جائز ہے اسی کو فرمایا کہ ان چوپایوں میں ٹھہرے وعدہ تک فائدے ہیں ‘ پھر ٹھہرا ہوا وعدہ آنے کے بعد اللہ کے نام پر ان جانوروں کی قربانی ہوگی حج کے وقت ٹھہرا ہوا وعدہ عرفات سے پلٹ کر منیٰ میں آجانا ہے اور عمرہ کے وقت عرفات کا جانا نہیں ہے اس لیے عمرہ کے وقت ان جانوروں کا منیٰ میں پہنچ جانا یہی ٹھہرا ہوا وعدہ ہے۔ صلح حدیبیہ کے قصہ کی صحیح بخاری وغیرہ میں جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ جب مشرکین مکہ نے اللہ کے رسول کو مکہ کے اندر جانے سے روکا تو آپ ﷺ نے نیاز کے جانوروں کی قربانی حدیبیہ کے مقام پر ہی کردی۔ شاہ صاحب نے اپنے فائدہ میں جو یہ لکھا ہے کہ نیاز کے جانوروں کو مکہ تک پہنچانے میں دشواری ہو تو اللہ کا نام لے کر جہاں ان جانوروں کو ذبح کیا جاوے گا وہیں نیاز پوری ہوجائے گی ‘ اس سے شاہ صاحب نے اسی حدیبیہ کے قصہ کے مطلب کو ادا کیا ہے ‘ حج یا عمرہ کے سفر میں ایسے جانوروں پر ضرورت کے وقت سواری کا کرنا جائز ہے ‘ چناچہ صحیح بخاری ومسلم کی انس بن مالک کی روایت 4 ؎ میں اس کا ذکر تفصیل سے ہے۔ یہ بھی جائز ہے کہ اگر آدمی مکہ کو خود نہ جائے ‘ تو دوسرے شخص کی معرفت نیار کے جانور قربانی کے لیے منیٰ کو بھیج دے ‘ اس صورت میں جانور بھیجنے والے شخص کی حالت احرام کی نہیں ہے اس لیے احرام کی حالت میں جن چیزوں کی مناہی کا حکم ہے وہ حکم اس شخص سے متعلق نہیں ہے ‘ صحیح بخاری و مسلم کی حضرت عائشہ ؓ کی روایت 5 ؎ میں اس صورت کا ذکر تفصیل سے آیا ہے۔ (3 ؎ منتقی مع نیل الاوطارص 3 ج 5۔ ) (4 ؎ منتقی مع نیل الاوطار ص 31 ج 8۔ ) (1 ؎ صحیح بخاری مع فتح الباری باب قول اللہ تعالیٰ الحج اشہر معلومات ) (2 ؎ ایضا ) (3 ؎ اشکوٰۃ ص 127 باب فی الا ضحیتہ وص 231 باب الہدی ) (4 ؎ صحیح بخاری ص 229 ج 1 ) (5 ؎ مشکوٰۃ باب الہدی ص 231 )
Top